صفحات

جمعرات، 19 جنوری، 2017

ہمارے غزائی جرائم

انسانی جسم، انسان کی غذا اور سوچ کا عکاس ہوتا ہے ۔ صحتمند جسم یقناً صحتمند غذا اور صحتمند سوچ کی علامت ہوتا ہے ۔ صحتمند غذا کی فراہمی ایک مکمل نظام کے تحت ہی ممکن ہوتی ہے۔ عقل رکھنے والی قوموں نے اپنے معاملات میں غذا کے معاملے پر بہت توجہ دی ہے اور تحقیق و جستجو کے ذریعے نئ جہتوں کو ڈھوند نکالا ہے۔

ایک وقت پر یہ سوچا گیا کہ شاید نوع انسانی گھی کی کمی کا شکار ہو جائے گی تو مصنوعی گھی ایجاد ہوا اور سمجھا گیا کہ یہ اصلی گھی کا متبال ہے۔ اصلی گھی میں تو انسانی ضروریات کے وہ اجزا بھی موجود تھے جس کا انسان کو ادراک بھی نہیں تھا مگر مصنوعی گھی صرف شکل میں گھی سے ملتا تھا پھر یہ حل ڈھونڈا گیا کہ اس مصنوعی گھی میں کچھ وٹامن ملا دئے جائیں ۔ ترقی یافتہ اقوام نے تو اس پر سختی سے عمل کروایا مگر ہم جیسے ممالک جہاں لالچ اور حوص کو صحت پر فوقیت حاصل تھی وہاں گورنمنٹ کے اہلکاروں نے زہریلے گھی کے ڈبوں کو ہی فیکٹریوں سے بطور رشوت قبول کیااور یوں یہ کھوکھلے گھی کے ڈبے عام گھروں میں پہنچ گئے ۔ قوم اس گھی کو کھاتی گئی اور ہر نئے دن کے ساتھ صحت سے دور ہوتی گئی ۔ اب ہر بندہ اگر اپنا وٹامن کا ٹیسٹ کروائے تو وہ ہر اس ضروری وٹامن کمی کا شکار ہوگا جس سے وہ صحت مند زندگی گزار سکتا ہے ۔

سبق یہ پڑھایا گیا کہ انسان ہزاروں سالوں سے جس غذا کے زریئے اس دنیا میں زندگی گذار رہا ہے وہ سب جدید تحقیق سے دور تھی اور بالکل بھی مناسب نہیں تھی ۔ 

گھی تو صرف ایک مثال ہے اگر ہم باقی غزاوں کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی یہی حالت ہے ۔ بھائی اگر دودھ خراب نہیں ہو رہا ہے تو یہ اس کی خوبی نہیں بلکہ وہ تو دودہ ہی نہیں، دودہ کو ایک مدت کے بعد خراب ہونا ہے۔ یہی حالت مرغی،انڈہ،مچھلی اور تمام کھانے پینے کی اشیا کی ہے ۔

اب اگر آپ بازار سے ڈبل روٹی لینے جائیں اور اس پر لکھا ہو کہ اضافی وٹامن کے ساتھ تو سمجھ لیں کہ وہ بالکل خالی ہے وہ صرف پیٹ کی بھوک کو مٹا ئے گی لیکن آپکی غزائی ضرورت پورانہیں کر سکتی ہے۔ اور ساتھ میں کوئی طاقت کا شربت بھی لے لیں ۔

منگل، 15 ستمبر، 2015

حکومتوں کے جرائم

اس تحریر میں حکومتوں کی غلطیوں ، کوتاہیوں، ناہلیوں اور بد انتظامیوں کو جرم اس لیے کہا گیا ہے کہ میرے دل کی عدالت اس سے کم پر متفق نہیں ہو سکتی ۔ ایک شخص کی غلطی کا اثر بہت چھوٹا ہوگا مگر حکومت جب غلطی کرے گی تو وہ لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا بن جاتا ہےاور پوری قوم اس کو بھگت رہی ہوتی ہے ۔
اس تحریر میں کسی ایک حکومت کا زکر نہیں ہےبلکہ اس میں سب حکومتوں کا اجتماعی قصور ہے لہٰذا سب حکومتیں اس کو دل پر لے سکتی ہیں۔اس مضمون پر کیے جانے والے تمام تبصرے کھلے دل سے قبول کئے جائیں گے ۔

توانائ :۔

توانائ موجودہ دور کی انتہائ اہم ضرورت ہے ۔ اس سے تمام کاروبارِزندگی چلتا ہے ۔ اور اسی سے غریب سے لے کر امیر کا چولہا جلتا ہے ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ حکومتیں اس کی حساسیت کا بالکل بھی احساس نہیں کرپائیں اور اگر کچھ کوششیں کی بھی گئی ہیں تو بالکل بے اثر اور غیر سنجیدہ محسوس ہوتی ہیں ۔ توانائ کے اس بحران نے اس قوم کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا ہے ۔ قوم میں یقیناٴ وہ لوگ زیادہ تعداد میں ہیں جو دیہاتوں میں رہتے ہیں وہاں تو عجب حال ہے ۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مفادات کو یہاں بھی قربان نہیں ہونے دے رہے اور نہ ہی کسی اور کو یہ کام کرنے دے رہے ہیں۔ حکومتوں کا یہ جرم میں تو بالکل بھی معاف نہیں کر سکتا اور میں ان مجرموں کا قدرت کے ہاتھوں انتقام کا منتظر رہوں گا ۔

صحت:۔

صحت کا شعبہ ایسا ہے کی اس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے اور اس میں کو تاہی یقیناً نوعِ انسانی سے غداری ہے۔ صرف دوا ساز کمپنیوں کے قیام سےمعیارِ صحت کو بلند نہیں کیا جا سکتا یا پھر زیادہ تعداد میں ہسپتال بنا کر ہی صحت کے شعبے میں کار کردگی نہیں بڑہائ جا ساکتی بلکہ اس میں عوام کی آگاہی بہت ضروری ہے۔ صحت مند غذا اور صحتمند طرزِ زندگی کا شعور بھی انتہائ اہم ہے ۔ اس معاملے میں حکومتوں کی کسی سنجیدہ کوشش کو مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔تمام بڑے ہسپتالوں کو صرف شہروں تک محدود کر دینا بھی جرمِ عظیم ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مصیبت زدہ عوام کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہےاور بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جب اربابِ اقتدار سےقدرت اس کا حساب لے گی تو یہ کس جگہ چھپیں گے۔ 

پولیس:۔

پولیس کا محکمہ کسی معاشرے میں امن وامان کی فراہمی اور جرائم کو روکنےمیں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرےمیں نہ جانے اس پر توجہ کیوں نہیں دی گئ۔ اس میں پولیس کے عملے کا معیار زندگی انتہائ افسوسناک ہے اور پولیس کا معاشرے میں جومقام ہے اس پر دل کڑہتا ہے ۔ یقیناً تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور زہنی طور پر مطمئن پولیس ہی معاشرے میں امن قائم کر سکتی ہے۔ اس معاملےمیں حکومتوں کی ناکامی اس بات کی طرف دلیل کرتی ہے کہ اس میں حکومتیں عوام پراپنا اثر و رسوخ بر قرار رکھنے کیلئے اس جرم کا ارتکاب کرتی نظر آتی ہیں ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے عوم میں شعور بیدار ہوتا جائے گا تو کچھ عرصہ میں پولیس کی ذمہ داری عوام خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے اور یہ عمل یقیناً حکمرانوں کو سبق سکھائے گا۔ جب شاید ان کی اولادیں اس کا حساب دے رہی ہونگی۔

تعلیم:۔

تعلیم کے معاملے میں حکومتی غفلت نا قابلِ برداشت ہے ۔ جب میں شہری زندگی سے دور نکلتا ہوں تو ٹوٹے پھوٹے اسکول نظر آتے ہیں اور ان میں سفارش پر بھرتی ہونے والا غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہمارے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں ۔ کسی بھی چک میں ، گاوٴں میں یا پسماندہ علاقے میں جا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ زندگی کتنی مشکل ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام نہ تو جدید علوم پر توجہ دیتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں جینے کیلئے اخلاقی تربیت کر پاتا ہے اور ہم پڑھی لکھی، غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ نسل تیار کر رہے ہیں ۔ یہ وہ جرم جس کی سزا ہمارے حکومتی عہدے داروں کو ضرور ملنی چاہئے ۔

بنیادی جمہوری ادارے:۔

بنیادی جمہوری ادارے عوام کو نچلی سطح پر سہولیات فراہم کرنے کا واحد بنیادی ذریعہ ہیں ۔ بدقسمتی سے ہماری جمہوریت کی دعویدار جماعتیں بھی اس نظام کو نافذ کرنے میں مخلص نہیں ہیں۔ ہر مسئلے کے حل کیلئے لوگ وزیراعظم، وزیر اعلٰی کی طرف دیکھتے ہیں تو مسائل کے انبار لگ جاتے ہیں اور گلی محلے میں عوام کی سننے والے کوئ بھی نہیں ۔ اس جرم کو بھی معاف نہیں کیا جاسکتا اس جرم سے عوام کے ہاتھوں میں سے اصل طاقت چھین لی گئ ہے اب عوام ایسی جمہوریت کا اچار ڈالیں جو ان کے محلے کی سڑکوں کی صفائ نہ کر سکے ، جہاں گٹر بھرکر لوگوں کے گھروں میں آجائیں اور محلے میں کوئ ڈسپنسری بھی کام نہ کر رہی ہو۔ اس جرم کی سزاکی لپیٹ میں حکومتیں جب بھی آئیں گی تو ان کو کوئ بھی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ 

کاروبار پر قبضہ:۔

تمام بڑے اور بنیادی کاروباروں پر سیاسی لوگوں کا قبضہ نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کو اپنے کاروباروں کے پھیلانے میں استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔ کاروبار کرنا کوئ جرم نہیں مگر اس پر عام عوام کے دروازے بند کر دینا یقیناً ایک جرم ہے ۔ تمام  عوامی عہدوں پر فائز لوگ جب اپنے کاروبار کو پھیلانے کیلئے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہیں تو مساوی مسابقت کو نقصان پہنچتا ہے، معاشرے میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور سرمائے کا پھیلاوٴ محدود ہو جاتا ہے اور عمومی طور پر غربت بڑہ جاتی ہے ۔ ملک میں کاروباری حالات ٹھیک نہیں ہوتے لیکن چند وزیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔

قانون قدرت ہے کہ ہر جرم کی سزامل کر رہتی ہے۔ جتنی دیر ہو رہی ہے اس میں یقیناً اتی ہی سختی ہوگی اور شاید قدرت ان کو سدھرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے ۔ کئ حکمرانوں کے نشان مٹ چکے ہیں اور باقیوں کے مٹنے والے ہیں اگر انہوں نے اپنے جرائم کی اصلاح نہ کی تو ان کی نسلیں انہی پولیس والوں ، انہی ڈاکٹروں اور انہی بے بس عوام کے ہتھے چڑہیں گے کیوںکہ اگرقرآن سچا ہے تو اس میں کہا گیا ہے کہ الللہ تعالٰی اپنے قوانین کو تبدیل نہیں کرتا ۔یقیناً قدرتی انتقام متحرک ہوگا اور مجرم لوگ پنے مفادات کےساتھ کہیں دفن ہو جائیں گے ۔

جمعہ، 14 اگست، 2015

ہم زندہ قوم ہیں، آئیں پھر سے جیئں

ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اس میں کوئ شک نہیں کہ زندہ قوم ہیں۔ ہم روز بیدار ہوتےہیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں مگن رہتےے ہیں ۔ ہم ہر روز مشکل ترین حالات کا سامنا کرتے ہیں اور پھر ان سے گزر جاتے ہیں ۔ ہمیں ناکام ریاست قرار دینے کی تیاری کی جاتہ ہے مگر ہم پھر بھی چلتے رہتے ہیں ۔ 
ہمارے ملک کے کاروباری ادارے ترقی بھی کرتے ہیں اور آگے بھی بڑہتے ہیں ۔  ہم روز سڑکوں پر اندھا دھند گاڑی چلاتے ہیں اور پھر بھی اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں ۔
پھر ہم مضطرب کیوں ہیں، کہیں ہم بہت بھولے ہیں اور کہیں ہم انتہائ چالاک ہیں ۔ کہیں ہم خشک سالی سے مر جاتے ہیں اور کہیں ہم پانی میں ڈوب کر مر جاتے ہیں ۔ کہیں سڑکوں پر خالی پیٹ کو بھرنے کیلے بھیک مانگ رہیے ہیں تو کہیں ہم کھا کھا کر مر رہے ہیں ۔ کہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے رسول کے نائب ہیں تو کہیں ہم ہر کسی کو الللہ کا بندہ ماننے کو ہی تیار نہیں ۔

آئیں پھر سے جیئں ۔۔ ہم زندہ قوم ہیں

صبر سیکھ لیں۔۔ پودا لگا کر اس پودے کے بڑے ہونے کا انتظار کریں تا کہ پھل کھا سکیں ۔ سڑک پر سگنل بند ہونے پر سکون کے دو سانس لیں تاکہ زہنی اضطراب سے بچ جائیں ۔ راستے پر چلتے ہوئے رک کر دوسرے کو راستہ دے دیں ۔ آئیں ہم سب پر رحم کرنا سیکھ لیں تاکہ ہم پر رحم کیا جائے ۔ آئیں ظلم کرنے سے رک جائیں تاکہ ہم بھی زندگی میں سکون دیکھ سکیں ۔ زندگی کی دوڑ میں دو چار لمحے رک کر تنہائ میں بیٹھ کر اپنے رب سے سکون کی التجا کر لیں ۔ اور جب ہم یہ سمجھیں کہ ہم مشکل میں گھر گئے ہیں تو اپنی انا اور تکبر سے باہر آجائیں ۔ جب سمجھنے لگیں کہ اتنی محنت کے بعد بھی پیسے کم پڑتے ہیں تو کچھ اور بھی تو سوچیں کہ کہیں محنت ہی غلط سمت میں کر رہے ہیں ۔ سب کچھ کرنے کرنے کے بعد، صرف ایک بار دیوار سے ٹیک لگا کر سوچیں کہ آخر کس کیلئے ہم سب کچھ کر رہے ہیں ؟ اور اگر سکون نہیں مل رہا تو زرا راستہ تبدیل کر لیں  زرا سا صبر کرنا سیکھیں ۔ پودا لگا اس کیے بڑے ہونے کا انتظار تو کریں ۔۔

جشن آزادی مبارک 

ہفتہ، 30 مئی، 2015

گدھے کا گوشت، قدرت کا انتقام

معاشرے میں جس طرح کرپشن سرایت کر چکی ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گی۔
 میں یہ سوچتا تھا کہ یہ نظام کیسے درست ہو گا اور یہ ظلم اور کرپشن کیسے ختم ہو گی لیکن  جب سے مجھے پتا چلا کہ گدھوں کا گوشت تمام اربابِ اختیار کے کھانوں میں پہنچ چکا ہے تو مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے اوراب  میں پر سکون ہو گیا ہوں۔

مجھے قدرت کی وہ سٹریٹجی سمجھ میں آگئ ہے جس سے وہ ان کرپٹ لوگوں کا خاتمہ کرے گی اور کرپٹ لوگوں کو اسی نظام کی چکی پیس سے دے گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سمجھدار کیلیے اشارہ ہے ۔

جب سے مجھے پتہ چلا ہے کی تقریباً ہرحکمران، وزیر اور اعلی عہدیدار تک گدھے کا گوشت پہنچ چکا ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب قدرت ان سے ان کے اعمال کا بدلہ لینے پر آچکی ہے۔ جب حکمران کرپٹ ہونگے تو وہ اپنے آپ کو بچانے کیلئے اپنے ارد گرد کوئ نیک یا پارسا لوگ تو اکٹھے نہیں کرینگے نا ۔

اب اگر نا اہل اور کرپٹ پولیس والے بھرتی کر دئے جائیں گے تو وہی پولیس اہلکار ان کی حفاظت بھی کریں گے ۔ مگر نا اہل ہونے کی وجہ سے یقیناً انہی کی نا اہلی سے مارے جائیںگے ۔ جیسے کی کچھ دن پہلے ایک غیر متعلقہ شخس سینیٹ میں پہنچ گیا تھا ۔

اب اگر میں جعلی دوائ کی اجازت رشوت لے کر دے دونگا تو میرا بیٹا،بیٹی، بیوی اور میں خود بھی تو وہی دو کھاوں گا اور پھر اس ملاوٹ کے مزے لوں گا ۔ میرے جییسے بیوقوف شخص نہیں ہوگا جو یہ سمجھے کہ امپورٹڈ پیکنگ میں بکنے والی دوائ دراصل میرے محلے تیار کی گئ ہے ۔

بھائ کرپٹ لوگ کیسے کسی نیک اور پارسا کو ڈاکٹر لگا سکتے ہیں، اور وہ اپنے جیسے کسی کو ڈاکٹر لگا ئیں گے تو کسی ایک دن ان کو خود یا ان کی آل میں سے کسی کو اسی سے دوائ لینی ہے ۔

نااہل اور کرپٹ محکمہ صحت کے لوگوں کی وجہ سے اگر غیر صحتمند گوشت بازار میں دستیاب ہے تو یقیناًً ان ناہل لوگوں کا خاندان اور یہ خود بھی گدھے کا گوشت ہی کھا رہے ہوںگے۔ جیسے کہ قصابوں نے مانا کہ جو گوشت فوڈ انسپکٹر کے گھر میں گوشت جاتا تھا وہ بھی گدھے کا گوشت ہوتا تھا ۔

اگرارباب اختیار ایر لائین میں نااہل لوگ بھرتی کرینگے تو خود بھی ایک دن اسی نااہل بندے کے ہاتھوں قدرتی انتقام کا شکار ہونگے ۔

مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اس تحریر سے ان لوگوں کو کوئ فرق نہیں پڑے گا جو اس کرپٹ نظام کا حصہ بن چکے ہیں وہ اب بھی کئ دلائل دیں گے اور اپنے آپ کو بالکل بے گناہ اور مجبور ثابت کرینگے مگر میں کیا کروں جب کہ مجھے نظر آرہاہے کہ قدرت تو انتقام لینے پر تیا ر کھڑی ہے۔ کبھی وہ گدھے کا گوشت کھلائے گی کبھی وہ جعلی دوائ دلوائے گی کبھی چھپکلی والا برگر کھلا دے گی کبھی ڈاکٹر سے غلط آپریشن کروا دے گی اور کبھی بچے کو نشے میں مبتلا کروا کر مستقبل تباہ کروا دےگی ۔ آئیں ہم مزے کرتے ہیں اور قدرت کے انتقام کا انتظار کرتے ہیں ۔

اتوار، 22 فروری، 2015

ہمارے کاروبارمیں جدت کیوں نہیں ؟

میں جب سے لاہور منتقل ہوا ہوں تو لاہور کے کھانوں کی بہت تعریف سنی ہے۔ اور کئ بار تجربہ بھی کیا اور اندازہ ہوا کہ لاہور کے کھانوں میں جو لزت اور زائقہ ہے وہ یقناً خاص ہے۔

اسی طرح کچھ دن پہلے ایک دوست کے ساتھ لاہور کا مشہور "ہریسہ" کھانے کا اتفاق ہوا ۔ میرا دوست مجھےجب اس دکان پر لے گیا تو اس نے بتایا کہ یہ ہریسہ دو نسلوں سے اسی دکان میں چل رہا ہے اور یہ اسی طرح مشہور ہےجیسے کئ سال پہلےمشہور تھا ۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئ کہ ہمارے ہاں کئ کاروبار نسل در نسل چل رہے ہیں جو کہ ایک مثبت بات ہےاور اس روایت کو اور آگے بڑھنا چاہئے ۔

ہریسہ کی دکان میں پہنچ کر میں شدید کشمکش کا شکار ہو گیا ۔ دکان کی حالت کسی بھی طرح ایک کھانے کی جگہ نہیں لگ رہی تھی۔ یہ تو ایک انتہائ پرانی دکان تھی اور صفائ کا کوئ خاص انتظام نظر نہیں آرہا تھا۔ ہاتھ دھونے کی جگہ اتنی گندی تھی کہ ہاتھ دھونے کا دل نہیں کر رہا تھا ۔ بیٹھنے کیلیئے کرسیاں بھی صاف نہیں کی گئیں تھیں اور برتنوں کی صفائی دیکھ کر تو دل ویسے ہی بھر گیا ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ جس نسل نے دکان کا آغاز کیا تھا اس کے بعد کسی میں ترقی کا شعور نہیں آیا ۔

یہ سب دیکھنے کے بعد ایک بات سمجھ میں آگئی کہ اس جدت پسندی کے دورمیں ایسے کاروبار کتنا عرصہ تک زندہ رہ سکتے ہیں جب کہ ان کے پاس کسٹمر سروس کا کوئ تصور ہی نہیں ہے۔ ایسے کاروباری حضرات پر زمانے کی تبدیلی کے کوئ اثرات مرتب نہیں ہو تے ہیں۔

پھر میں نے سوچا کہ یہ صورتحال تو کئی جگہ موجود ہے ۔ جو سائیکل ہم نے بچپن میں دیکھی ہے اس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئ اور نہ ہی کوئ اس میں اضافی سہولت مہیا کی گئ ہے ۔ جو موٹر سائیکل ہم نے کئی سالوں پہلے تیا ر کی تھی وہ اب بھی یہاں جوں کی توں بیچی جا رہی ہے۔ اس کے بر عکس کئ بیرونی ممالک اپنے گاہکوں کو مایئل کرنے کیلئے ہر سال نئے فیچرز کے ساتھ اپنی مصنوعات ہمارے ممالک میں بھیجتے ہیں اور ہمارے کاروباری اور صنعتکار صرف برا بھلا کہنےکے سے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ 

جو کاروبار بھی ہمارے معاشرے میں ترقی کرتے نظر آتے ہیں وہ سب کے سب وقت کی آواز کو سنتے ہیں اپنے مصنوعات میں جدت لاتے ہیں اور نئے تجربات کر کے کسٹمرز کو متوجہ کرتے ہیں اور یوں آگے بڑھتے ہیں ۔ 

چین کی مصنوعت کی بھر مار کے پیچھے ایک بہت بڑی پروڈکٹ ریسرچ نظر آتی ہے ۔ ایک ہیٹر کے ساتھ صرف ایک پنکھا لگانے سے ایک نئی پروڈکٹ بن جاتی ہے اور ایک مقابل کی کمپنی بند کی جا سکتی ہے۔ہم گیس ہیٹر بنانے والی فیکٹریاں چلاتے ہیں مگر پھر بھی جاپانی گیس ہیٹر کو ترجیح اس لیے دیتے ہیں کی انہوں نے وقت کے ساتھ اس میں بدلاو کیے اور اس کی افادیت میں اضافہ کیا۔ ہمارے بزرگ اب بھی موٹر سیائیکل کو "کک"مار مار کر بیزار آجاتے ہیں مگر ہماری موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیا اس میں ایک عدد "سلف اسٹارٹر" لگانے کا تجربہ نہیں کر سکتی ہیں ۔
 یہ "انوویشن " ہمارے معاشرے میں کب آئے گی۔ ہماری پچاس سالہ سائیکل کب بدلے گی، ہماری گاڑی عالمی معیار پر کب آئے گی، ہمارے پنکھے میں جدت کب آئے گی۔ ہم کب نیا ہیٹر ایجاد کریں گے۔ ہمارا UPS  کب توانائی بچانے والا بن سکے گا ؟

یہ سب سوچتے ہی ہریسہ سامنے آیا اور ہم نے اسے کھانا شروع کردیا اور پانی کی درخواست کی جو کہ ہریسہ ختم ہونے اور بل کی ادائیگی تک نہ دستیاب ہو سکا۔ ہم پانی کے بغیر پیٹ بھر کر اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر نکل پڑے۔


پیر، 5 جنوری، 2015

میں پاک فوج کو سلام پیش کیوں نہ کروں

ہم نے جب سے پشاور کا سانحہ دیکھا ہے تو ہم سب غم میں ڈوبے ہوئے ہے ۔ میں نے اس واقعے کے بعد لوگوں کے خیالات بدلتے دیکھے ہیں ۔ لوگ اب اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گرد عناصر کو اب مکمل طور پر صاف کر دینا چاہئے۔ 
ہمیشہ کی طرح سیاست دانوں کی نااہلیت ثابت ہو گئ ہے۔جو رپورٹ میں نے سوشل میڈیا پر دیکھی ہے اور جس میں خیبر پختونخواہ حکومت کو یہ بتایا گیا تھا کہ پشاور کے سکول پر حملے کی منصوبہ بندی ہوگئی ہے تو یقیناٴ حکومت خیبر پختونخواہ سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے کیا کیااورمرکزی حکومت اتنے عرصے تک دہشتگردوں کو سزائیں کیوں نہیں دلوا سکیں۔
 لیکن قوم کے پاس اب بھی ایک امید کی کرن ہے اور وہ ہے افواج پاکستان۔اس سانحے کے بعد پاک فوج نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ یقینی طور پر متوقع تھا۔ فوج نے کاروائیاں تیز کر دیں اور لگتا ہے کہ کئ پیچیدہ معاملات پر واضع اور کھلے موقف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
فوجی عدالتوں کا قیام بھی اسی ردعمل کے طور پر سامنےآرہاہے ۔ مجھے نہیں پتا جمہوریت کے دعوے دار اس کو کیوں قبول کر رہے ہیں اور شاید ان کے اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اگر جمہوری حکومتیں انصاف کے نظام کی درستگی کی کوششیں کرتی نظر آتیں تو اس متوازی نظام کی ضرورت نہ ہوتی اور عوام کو بالعموم سستااور فوری انصاف مل رہا ہوتا۔ 
عوامی جمہوری حکومتیں پچھلے سات سال میں عوام کو جس جمہوری نظام کو نافز کرنے کی نوید سنا رہی ہے اس جمہوری نظام میں آج تک کبھی بھی سارے سیاسی رہنما اس طرح اکٹھے نہیں بیٹھ سکے۔ ان سب کو یہ توفیق نہیں ملی کہ یہ اکٹھے ہو جائیں اور پاکستان میں نظام انصاف کی اصلاح کیلے کوئ طرقہ کار وضع کر سکیں، کوئ بل منظور کر سکیں یا کوئ آرڈیننس ہی لے آئیں ۔یہ سب جانتے ہیں کہ اگر عام عدلیہ مضبوط ہوتی ہے تو ان کے جاتی امرا، بنی گالا اور کلفٹن کے محلات محفوظ نہ رہیں گے۔ یہ سب جمہوریت کے دعویدار اب فوجی عدالتی نظام کو نافز کرنا چاہتے ہیں کی ان سیاسی جدوجہد جاری رہ سکے۔ اور وہ عوام کے سامنے سرخرو ہو سکیں ۔ 

پاک فوج کی واضع وابستگی نے یہ بات بھی ثابت کر دی ہے کہ افواج کو کام کروانا آتا ہے اور اگر ان کو کام کروانا آتا ہے تو ہمارے سیاسی رہنما کب سیکھیں گے کہ عوام کو بھی تیز رفتار انصاف چاہئے اور وہ برسوں تک تھانے اور کچہری کا چکر نہیں لگا سکتے ۔ اگر موجودہ جمہوری نظام بنیادی انصاف فراہم نہیں کر سکتا تو میں کیوں جمہوریت کی تمنا کروں اور کیوں اپنے سیاسی رہنماوں کےمفادات کا تحفظ کروں۔

منگل، 7 اکتوبر، 2014

ہر چیز زہر سے نہیں مرتی کبھی گڑ بھی استعمال کریں

میرا بچپن گاوٴں میں گزرا۔ گاوٴں کی پسماندگی کی حالت یہ تھی کہ میں پانچویں جماعت میں پڑہتا تھا جب ہمارے گاوٴں میں بجلی آئی تھی۔ 
گاوٴں کی زندگی میں کیڑے مکوڑوں، زیریلے سانپوں اور تمام پالتو جانوروں کو اپنے ماحول کا حصہ دیکھا اور اس سے کوئی ڈر یا خوف نہیں محسوس کیا۔ گھر کے کمروں کے چھت کچے تھے اور لکڑی کے شہتیروں سے بنے ہوئے تھے۔ گھر کی چھت میں چڑیوں کے گھونسلے ایک عام سی بات تھی اور وہ چڑیاں اس ماحول کا حصہ لگتی تھیں  اور اگر کبھی زیادہ تنگ کرتی تھیں تو کچھ روٹی کے ٹکڑے نیچے پھینک دیے جاتے اور وہ ان کو اٹھا کر خاموش ہوجاتیں۔ ان چڑیوں کے انڈوں اوربچوں کے شکار کی تلاش میں کبھی کبھار سانپ بھی آجاتے تھےچڑیاں ایک دم مخصوص آواز میں مدد کو پکارتیں تو ہماری دادی اماں اچانک سے اٹھتی تھیں اور ایک مخصوص ڈنڈا اٹھاتیں، جس کے سرے پر ایک مخصوص لوہے کا ٹکڑا لگا ہوتا تھا  اور وہ سانپ کے پیٹ میں گھونپتی تھیں اور سانپ کو زمیں پر گرا کر مار دیتی تھیں۔ یوں چڑیوں کا شور ختم ہو جاتا، گویا قدرت خود ہی الارم کا کام کرتی تھی اور انسان چڑیوں کو اور چڑیاں انسان کو بچاتی تھیں۔

یہ سب یاد آگیا، کیونکہ میرا بیٹا چیونٹیوں کو مارنے کیلیے ایک زہریلا سپرے اٹھا لایا تو میں نے اسے فوراً روکااور اپنی دادی اماں کا طریقہ کار بتایا۔ ہم نے دیکھا تھا کہ جب کبھی چیونٹیاں نکل آتی تھیں تو دادی اماں فوراً چیونٹیوں کے بل کے نزدیک آٹے کی مٹھی ڈال دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ان چیونٹیوں کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا اگر ہم ان کی بھوک نہ مٹائیں اور چیونٹیاں آٹا اٹھانے کے چکر میں تنگ نہیں کرتی تھیں اور واپس بل میں گھس جاتی تھیں ۔ یہ ہے وہ فطرت کے ساتھ انسان کا تعلق جس کی وجہ سے انسان نے لاکھوں سال بغیر کسی پیسٹیسائیڈ Pesticide ، بغیر کسی Antiseptic ، اینٹی بائیوٹیک Antibiotic اور بغیر کسی بوٹی مار سپرے کے گزارے ہیں ۔ 
اب جب میں ہر جگہ جراثیم کش صابون اور جراثیم کش سپرے کے اشتہار دیکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اب انسان نے فطرت کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے اور فطرت کے یہی کارندےاس کے دشمن ہو گئے ہیں اور اب یہ دکھا یا جاتا ہے کہ جراثیم دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں ۔کبھی مچھر انسان کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی اور فطرت کا کارندہ انسان کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔اور انسان پہلے سے طاقتور زہر کی ایجاد شروع کر دیتا ہے۔
اب مجھے یہی دشمنی انسان کے خون میں سرایت کرتی نظر آتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے  کہ جو دین ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے انتہائی محبت کے ساتھ پھیلایا تھا اور لوگوں کو محبت کی زبان سے قائل کیا تھا اسی نبی کریم ﷺ کے ماننے والے دین میں اختلاف پرجان سے مارنے کو عین دین سمجھتے ہیں ۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی رد عمل ظاہرنہیں ہوگا ؟