صفحات

جمعرات، 22 مئی، 2014

مجھے کیسا میڈیا چاہیے؟

خدا خدا کرکے وہ وقت آگیا ہے جب ہم اس پر بحث کر رہے ہیں کہ اس وقت ہمارا آزاد میڈیا ہماری ضرورت پوری کر رہا ہے یا نہیں ۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے معا شرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ شاید ہمیں ابھی مثبت اور منفی کا ہی نہیں پتا ۔
جب سے ہمارا میڈیا آزاد ہوا ہے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ یہ ہوتی ہے آزادی۔ اگر یہ آزادی ہے تو پھر ہم اس آزادی سے دور ہی بہتر تھے ۔
ہم نے سیکھا کہ بریکنگ نیوزہی سب کچھ ہوتی ہے اور ہر لمحہ بریکنگ نیوز کا ہوتا یے۔ ہم نے سیکھا کہ گلا پھاڑ کر اور چیخ چیخ کر اگر خبریں پڑہی جائیں تو وہ بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ انسان کے مردہ جسم کے ٹکڑے دکھانے زیا دہ خوف پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے میڈیا کے ذریعے جانا کہ ہمارا ملک تو تباہ ہو چکا ہے اور یہ جو ہم ہر روز دفاتر اور دکانوں اور کاروباری اداروں میں کام کاج پر جاتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ اور یہ ہمارے بازاروں اور مساجد کی رونق بھی ایک دھوکا ہے۔
ہم نے سیکھا کہ صرف سڑک پر ٹائر جلانے سے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔ اور رمضان میں سحر و افطارکے بعد نماز پڑہنے اور روزہ رکھنے سے زیادہ اہم کام رمضان کے اسلامی پروگرام دیکھنا ہے۔ 
ہم نے دیکھا کہ پڑوسی ملک کا سارا کلچر ہمیں اپنا لینا چاہیے اور ہماری کوئی شناخت نہیں رہی۔ ہم نے دنیا کہ تمام بڑے میڈیا کے اداروں کو سمجھایا کہ ایسے ہوتے ہیں ٹالک شوز اور اس جاہلانا طریقے سے قوموں کے بڑے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ مجھے سکھایا گیا کہ دنیا کی تمام مصائب ابھی ہیں اور اس سے پہلے ہزاروں سالوں سے دنیا میں سکھ ہی سکھ تھےاور ان مصائب کا کوئی حل نہیں ہو سکتا۔ 
ہماری قوم بھی فارغ ہی تھی اور کوئ کام تھا ہی نہیں کرنے کو، سو بزرگ خبروں کے پروگرام پر لگ گئے، خواتین فیشن شوز  اور ڈراموں میں مصروف ہوگئیں اور ہر بندے کا علیحدہ ٹیلی وژن سیٹ ہو گیا۔ بموں کی جھوٹی اطلاعات پر ہی آدھے دن بریکنگ نیوز چلتی رہی۔ قوم کی تربیت کرنے والا کوئی بھی فارغ نہیں رہا۔
 یوں قوم نے سب کچھ سیکھنے کے باوجو کچھ بھی نہیں سیکھا۔ قوم کو نہیں پتا کہ استاد کی قدر کیا ہوتی ہے ۔ قوم یہ سیکھنے سے قاصر رہی کہ جب مصیبت آجائے تو خودکشی کرنے کے بجائے واستعينوا بالصبر والصلاة (ترجمہ:مصیبت میں صبر اور نماز سے مدد لو) کی طرف رجوع کرنا چائیے ۔ قوم بیچاری کو کوئی بھی یہ نہ سکھا سکا کہ سڑک پر کار، سائیکل اور موٹر سائیکل کیسے چلاتے ہیں ۔ ٹریفک کے سگنل پر رکنا کیوں ضروری ہے۔ قوم کو پتا ہی نہیں چلا کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کیسے کریں ۔ میاں اور بیوی کے باہمی حقوق و فرائض کیا ہوتے ہیں ۔خواتیں کی عزت اور حرمت کی باتیں کر کے خواتیں کو شو پیس کے طورپر دکھایا گیا۔ ہمیں یہ سکھانے والا کوئ بھی نہیں رہا کہ آج کے دور میں کروڑوں کے بیڈروم میں خوش اور پر اعتماد زندگی کیسے گزاریں۔ ہمیں کم از کم اخلاقیات تو اس میڈیا نے اپنی جھوٹی ریٹنگ کے چکر میں بلکل بھی نہیں سکھائیں ۔  ساس اور بہو کو نہیں سکھایا گیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ پر سکون زندگی کیسے گزاریں بلکہ پڑوسی ملک کے گھریلو سازشوں سے بھر پور ڈرامے دیکھنے کو ملے۔ ہم یہ سیکھ ہی نہیں سکے کہ ستاروں کی چال پر چلنے کے بجائے وَأنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى  (ترجمہ:انسان کواس کی محنت کے سوا کچھ نہیں ملتا)پر توجہ دینا ضروری ہے۔   ہمیں کوئی تو سکھاتا کہ ترقی کی منازل طے کرنے کیلیئے کردار ایک برانڈ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں کسی نے نہیں سکھایا کہ جو عورت گھر کے کام کاج کرتی ہے اور ہزاروں لاکھوں روپے کی سروسز مہیا کرتی ہے وہ بھی ورکنگ وومین ہے۔ کاش ایسا میڈیا مل جائے جو کم از کم کچھ بنیادی چیزیں ہی سکھا دے ہمیں۔
کیا اب ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کیسا میڈیا چاہیے ؟