صفحات

ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

پاکستان میں3G کا مستقبل اورمواقع

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں 3G موبائیل ٹیکنالوجی کی دستیابی شروع ہو چکی ہے اور اب ہم اپنے موبائیل فون پر   صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ تیز انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں ۔ گو کہ ابھی تک اس سروس کی دستیابی بہت وسیع پیمانے پر نہیں ہوئی ہے مگر اب متعارف ہو چکی ہے تو آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہو جائے گی۔ 

اب ہمیں اس بات پر سوچنا ہے کہ اس سے کیا فائیدہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ کئی لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کی عوام میں اس کی مقبولیت زیادہ نہیں ہوگی اور اس کا کوئی مناسب کاروبار میں استعمال نہیں ہو سکتا ۔ میری رائے میں جتنا بڑا یہ ملک ہے اور جس قدر تیزی سے موبائیل کا پھیلاوُ پاکستان میں ہوا ہے 3G کے پھیلاوُ کی رفتار اس سے کافی زیادہ  تیز ہوگی۔ 
ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ سب رابطہ رکھنا چاہتے ہیں  انٹرنیٹ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو صرف مناسب سروسز کی فراہمی ضروری ہے جو ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کرسکے

بدقسمتی سے ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کا سارا کاروبار کراچی، لاہور ، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں ہی ہوتا ہے اور باقی دور دراز کے علاقوں کو ہم نے کبھی بھی وہ اہمیت نہیں دی تو ہماری سوچ محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ 

انٹرنیٹ کی مقبولیت اب پاکستان کے ہر شہر اور گاوُں میں ہو چکی ہے اور اس کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔ اور جیسے کہ ابھی بھی انٹرنیٹ پر صرف ایک بڑی کمپنی کی اجارہ داری قائم ہے اور اسی وجہ سے اپنے گاہکوں کو تسلی بخش معیار مہیا نہیں کر سکی ہے اور جو WiMax (وائی میکس) کمپنیاں بھی آئی وہ اپنی سہولیات کو چند بڑے شہروں سے آگے نہیں لے کر جاسکے اور جہاں پر ان کے سروس دستیاب ہے وہاں بھی اکثریت مطمعن بالکل نہیں ہے اور انترنیٹ کا سنجیدہ کسٹمرز ہمیشہ پریشان ہی رہتے ہے جو کہ مجبورہیں کہ غیر تسلی بخش سروس استعمال کریں ۔ وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی مناسب سروس دستیاب ہو تو اس سے استفادہ کر سکیں اسی وجہ سے تمام اٹرنیٹ سروس پروائڈرز ابھی تک گاہکوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی آفرز ہی دیتے رہتے ہیں ۔

موبائیل کمپنیوں کا نیٹ ورک اب بہت وسیع ہو گیا ہے اور ان کا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک بھی کافی مضبوط ہے اور اگر یہ اپنی 3G سروس کو با قاعدہ انٹرنیٹ سروس کے طور پر علیحدہ متعارف کروائیں تو یہ بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرلیں گے اور اگر معیار کو بہتر رکھا جائے اور کسٹمر کا اطمینان حاصل کیا جائے تو شاید بہت جلد موجودہ انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں ۔

اس سارے منصوبے میں فتح اس کی ہو گے جو
  •  اپنی سروس کو جلد سے جلد دور دراز کے علاقوں میں مہیا کرے گا
  •  اپنی سروس کے معیار کو کبھی گرنے نہیں دے گا
  • اور مناسب پیکج لائے گا ۔
 یقیناً یہ کام مشکل ہے مگر نا ممکن بالکل بھی نہیں ۔ اور یقیناً نت نئے تجربات سے ہی سیکھا جئے گا اور وہی فائدے میں رہے گا جو یہ تجربات کرتا رہے گا اور تجربات کا حوصلہ رکھے گا ۔


جمعرات، 4 ستمبر، 2014

آئی کلاوڈ(iCloud) ہیک اور احتیاطی تدابیر

انٹرنیٹ سروس کا کوئی نہ کوئی واقعہ دنیا میں گردش کرتا رہتا ہے ۔ جیسے جیسے انٹرنیت کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور انٹرنیٹ پر نت نئی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں تو ایسے ہی انٹرنیٹ پر ہیکنگ کے واقعات میں روز ہروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 
ابھی اطلاعات آرہی ہیں کہ کچھ دنیا کے مشہور فلمی ستاروں کی تصاویر ایپل کے آئی کلاوڈ سروس سے چوری ہو گئی ہیں ۔ جو کہ ایک انتہائی تشویشناک واقعہ ہے ۔ کیونکہ اس دور میں ہم سب ہی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور اپنی ذاتی تصاویر نہ صرف انٹریٹ کے ذریعے بھیجتے اور وصول کرتے رہتے ہیں بلکہ اٹرنیٹ کی مختلف کلاوڈ سروسز پر محفوظ بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ اب وقت کی ضرورت بھی بن گئی ہے ۔ تصاویر کے علاوہ  ہم بہت اہم دستاویزات بھی انٹرنیٹ پر محفوظ کرتے ہیں جن کے اندر بہت اہم کاروباری اور ذاتی معلومات بھی ہو سکتی ہیں جیسے کہ اب بہت سارے موبائیل فون ہماری طبی (میڈیکل) معلومات بھی محفوظ کرتے ہیں ۔ 

تو وقت کے ساتھ انٹرنیٹ کلاوڈسروس کی سیکیورٹی کی اہمیت کا احساس بھی بڑھتا جا رہاہے ۔ اور کلاوڈ سے ڈاٹا چوری ہونے والے واقعات سے یقیناً کلاوڈ سروسز پر اعتماد کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔

تازہ واقعہ میں ایپل کمپنی کا کہناہے کہ ہمارا نظام درست کام کر رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کسی نے پاسورڈ کوڈ چوری کر لیا ہو اور پھر اسے استعمال کر کے تصاویر اور دوسرا ڈیٹا چوری کر لیا ہو۔ وجہ کوئی بھی ہو اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پاسورڈز کو محفوظ رکھیں ۔ 

حقیقت یہ ہے کہ پاسورڈ کئی طرح سے چوری ہو سکتا ہے ۔

  • بڑی وجہ آجکل وی پی این (VPN) سروسز بھی ہو سکتی ہیں جن کے زریعے تمام ڈاٹا کسی ایک نامعلوم کمپنی کے کمپیوٹرز سے ہو کر گزرتا ہےجس کے بارے میں ہمیں کوئی پتہ نہیں ہوتا ۔
  • یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں غیر محفوظ مفت کا انٹرنیٹ وائی فائی (WiFi)استعمال کر لیا ہو اور وہ دراصل کسی ہیکر نےمعلومات چوری کرنے کیلئے اپنا جال پھیلا رکھا ہو ۔
  • ایک اور اہم وجہ جو سمجھ میں آسکتی ہے وہ سی سی ٹی وی (CCTV)کیمرہ ہیں جو کی سیکیورٹی کے نام پر ہر جگہ لگے ہوئے ہیں اور جب کوئی بھی کیمرہ کے سامنے موبائیل کا پاسورڈ ڈالے گا تو کیمرہ پر اس کی ریکارڈنگ ہو جائے گی اور اسے دیکھ کر پاسورڈ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔
  • کوئ ایسی ایپ بھی ہمارا ڈاٹا چوری کرسکتی ہے جو کہ ہمارے موبایئل پر موجود ہو اور ہمیں احساس بھی نہ ہو ۔ 

اب ہمیں یہ بھی احساس ہو رہاہے کہ شاید انٹرنیٹ پر معلومات کو محفوظ رکھنے کیلئے پاسورڈ کوئی قابل بھروسہ طریقہ نہیں ہے اور وقت کے ساتھ نئے طریقے بھی دریافت کرنے ہونگے اور اس وقت تک ہمیں جس حد تک ممکن ہو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہونگی تاکہ محفوظ رہیں۔