میرا بچپن گاوٴں میں گزرا۔ گاوٴں کی پسماندگی کی حالت یہ تھی کہ میں پانچویں جماعت میں پڑہتا تھا جب ہمارے گاوٴں میں بجلی آئی تھی۔
گاوٴں کی زندگی میں کیڑے مکوڑوں، زیریلے سانپوں اور تمام پالتو جانوروں کو اپنے ماحول کا حصہ دیکھا اور اس سے کوئی ڈر یا خوف نہیں محسوس کیا۔ گھر کے کمروں کے چھت کچے تھے اور لکڑی کے شہتیروں سے بنے ہوئے تھے۔ گھر کی چھت میں چڑیوں کے گھونسلے ایک عام سی بات تھی اور وہ چڑیاں اس ماحول کا حصہ لگتی تھیں اور اگر کبھی زیادہ تنگ کرتی تھیں تو کچھ روٹی کے ٹکڑے نیچے پھینک دیے جاتے اور وہ ان کو اٹھا کر خاموش ہوجاتیں۔ ان چڑیوں کے انڈوں اوربچوں کے شکار کی تلاش میں کبھی کبھار سانپ بھی آجاتے تھےچڑیاں ایک دم مخصوص آواز میں مدد کو پکارتیں تو ہماری دادی اماں اچانک سے اٹھتی تھیں اور ایک مخصوص ڈنڈا اٹھاتیں، جس کے سرے پر ایک مخصوص لوہے کا ٹکڑا لگا ہوتا تھا اور وہ سانپ کے پیٹ میں گھونپتی تھیں اور سانپ کو زمیں پر گرا کر مار دیتی تھیں۔ یوں چڑیوں کا شور ختم ہو جاتا، گویا قدرت خود ہی الارم کا کام کرتی تھی اور انسان چڑیوں کو اور چڑیاں انسان کو بچاتی تھیں۔
یہ سب یاد آگیا، کیونکہ میرا بیٹا چیونٹیوں کو مارنے کیلیے ایک زہریلا سپرے اٹھا لایا تو میں نے اسے فوراً روکااور اپنی دادی اماں کا طریقہ کار بتایا۔ ہم نے دیکھا تھا کہ جب کبھی چیونٹیاں نکل آتی تھیں تو دادی اماں فوراً چیونٹیوں کے بل کے نزدیک آٹے کی مٹھی ڈال دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ان چیونٹیوں کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا اگر ہم ان کی بھوک نہ مٹائیں اور چیونٹیاں آٹا اٹھانے کے چکر میں تنگ نہیں کرتی تھیں اور واپس بل میں گھس جاتی تھیں ۔ یہ ہے وہ فطرت کے ساتھ انسان کا تعلق جس کی وجہ سے انسان نے لاکھوں سال بغیر کسی پیسٹیسائیڈ Pesticide ، بغیر کسی Antiseptic ، اینٹی بائیوٹیک Antibiotic اور بغیر کسی بوٹی مار سپرے کے گزارے ہیں ۔
اب جب میں ہر جگہ جراثیم کش صابون اور جراثیم کش سپرے کے اشتہار دیکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اب انسان نے فطرت کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے اور فطرت کے یہی کارندےاس کے دشمن ہو گئے ہیں اور اب یہ دکھا یا جاتا ہے کہ جراثیم دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں ۔کبھی مچھر انسان کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی اور فطرت کا کارندہ انسان کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔اور انسان پہلے سے طاقتور زہر کی ایجاد شروع کر دیتا ہے۔
اب مجھے یہی دشمنی انسان کے خون میں سرایت کرتی نظر آتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو دین ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے انتہائی محبت کے ساتھ پھیلایا تھا اور لوگوں کو محبت کی زبان سے قائل کیا تھا اسی نبی کریم ﷺ کے ماننے والے دین میں اختلاف پرجان سے مارنے کو عین دین سمجھتے ہیں ۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی رد عمل ظاہرنہیں ہوگا ؟
2 تبصرے:
تحریر اچھی ہے ۔
اور ایک مثبت سوچ دینے والی ہے۔
ہماری زندگی منفی سوچوں میں ایسی گھری ہوئی ہے کہ بس ہمیں مفید اور مثبت پہلو نظر ہی نہیں آرہا۔
ٹیسٹ تبصر ہ
ایک تبصرہ شائع کریں