صفحات

منگل، 15 ستمبر، 2015

حکومتوں کے جرائم

اس تحریر میں حکومتوں کی غلطیوں ، کوتاہیوں، ناہلیوں اور بد انتظامیوں کو جرم اس لیے کہا گیا ہے کہ میرے دل کی عدالت اس سے کم پر متفق نہیں ہو سکتی ۔ ایک شخص کی غلطی کا اثر بہت چھوٹا ہوگا مگر حکومت جب غلطی کرے گی تو وہ لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا بن جاتا ہےاور پوری قوم اس کو بھگت رہی ہوتی ہے ۔
اس تحریر میں کسی ایک حکومت کا زکر نہیں ہےبلکہ اس میں سب حکومتوں کا اجتماعی قصور ہے لہٰذا سب حکومتیں اس کو دل پر لے سکتی ہیں۔اس مضمون پر کیے جانے والے تمام تبصرے کھلے دل سے قبول کئے جائیں گے ۔

توانائ :۔

توانائ موجودہ دور کی انتہائ اہم ضرورت ہے ۔ اس سے تمام کاروبارِزندگی چلتا ہے ۔ اور اسی سے غریب سے لے کر امیر کا چولہا جلتا ہے ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ حکومتیں اس کی حساسیت کا بالکل بھی احساس نہیں کرپائیں اور اگر کچھ کوششیں کی بھی گئی ہیں تو بالکل بے اثر اور غیر سنجیدہ محسوس ہوتی ہیں ۔ توانائ کے اس بحران نے اس قوم کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا ہے ۔ قوم میں یقیناٴ وہ لوگ زیادہ تعداد میں ہیں جو دیہاتوں میں رہتے ہیں وہاں تو عجب حال ہے ۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مفادات کو یہاں بھی قربان نہیں ہونے دے رہے اور نہ ہی کسی اور کو یہ کام کرنے دے رہے ہیں۔ حکومتوں کا یہ جرم میں تو بالکل بھی معاف نہیں کر سکتا اور میں ان مجرموں کا قدرت کے ہاتھوں انتقام کا منتظر رہوں گا ۔

صحت:۔

صحت کا شعبہ ایسا ہے کی اس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے اور اس میں کو تاہی یقیناً نوعِ انسانی سے غداری ہے۔ صرف دوا ساز کمپنیوں کے قیام سےمعیارِ صحت کو بلند نہیں کیا جا سکتا یا پھر زیادہ تعداد میں ہسپتال بنا کر ہی صحت کے شعبے میں کار کردگی نہیں بڑہائ جا ساکتی بلکہ اس میں عوام کی آگاہی بہت ضروری ہے۔ صحت مند غذا اور صحتمند طرزِ زندگی کا شعور بھی انتہائ اہم ہے ۔ اس معاملے میں حکومتوں کی کسی سنجیدہ کوشش کو مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔تمام بڑے ہسپتالوں کو صرف شہروں تک محدود کر دینا بھی جرمِ عظیم ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مصیبت زدہ عوام کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہےاور بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جب اربابِ اقتدار سےقدرت اس کا حساب لے گی تو یہ کس جگہ چھپیں گے۔ 

پولیس:۔

پولیس کا محکمہ کسی معاشرے میں امن وامان کی فراہمی اور جرائم کو روکنےمیں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرےمیں نہ جانے اس پر توجہ کیوں نہیں دی گئ۔ اس میں پولیس کے عملے کا معیار زندگی انتہائ افسوسناک ہے اور پولیس کا معاشرے میں جومقام ہے اس پر دل کڑہتا ہے ۔ یقیناً تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور زہنی طور پر مطمئن پولیس ہی معاشرے میں امن قائم کر سکتی ہے۔ اس معاملےمیں حکومتوں کی ناکامی اس بات کی طرف دلیل کرتی ہے کہ اس میں حکومتیں عوام پراپنا اثر و رسوخ بر قرار رکھنے کیلئے اس جرم کا ارتکاب کرتی نظر آتی ہیں ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے عوم میں شعور بیدار ہوتا جائے گا تو کچھ عرصہ میں پولیس کی ذمہ داری عوام خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے اور یہ عمل یقیناً حکمرانوں کو سبق سکھائے گا۔ جب شاید ان کی اولادیں اس کا حساب دے رہی ہونگی۔

تعلیم:۔

تعلیم کے معاملے میں حکومتی غفلت نا قابلِ برداشت ہے ۔ جب میں شہری زندگی سے دور نکلتا ہوں تو ٹوٹے پھوٹے اسکول نظر آتے ہیں اور ان میں سفارش پر بھرتی ہونے والا غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہمارے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں ۔ کسی بھی چک میں ، گاوٴں میں یا پسماندہ علاقے میں جا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ زندگی کتنی مشکل ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام نہ تو جدید علوم پر توجہ دیتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں جینے کیلئے اخلاقی تربیت کر پاتا ہے اور ہم پڑھی لکھی، غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ نسل تیار کر رہے ہیں ۔ یہ وہ جرم جس کی سزا ہمارے حکومتی عہدے داروں کو ضرور ملنی چاہئے ۔

بنیادی جمہوری ادارے:۔

بنیادی جمہوری ادارے عوام کو نچلی سطح پر سہولیات فراہم کرنے کا واحد بنیادی ذریعہ ہیں ۔ بدقسمتی سے ہماری جمہوریت کی دعویدار جماعتیں بھی اس نظام کو نافذ کرنے میں مخلص نہیں ہیں۔ ہر مسئلے کے حل کیلئے لوگ وزیراعظم، وزیر اعلٰی کی طرف دیکھتے ہیں تو مسائل کے انبار لگ جاتے ہیں اور گلی محلے میں عوام کی سننے والے کوئ بھی نہیں ۔ اس جرم کو بھی معاف نہیں کیا جاسکتا اس جرم سے عوام کے ہاتھوں میں سے اصل طاقت چھین لی گئ ہے اب عوام ایسی جمہوریت کا اچار ڈالیں جو ان کے محلے کی سڑکوں کی صفائ نہ کر سکے ، جہاں گٹر بھرکر لوگوں کے گھروں میں آجائیں اور محلے میں کوئ ڈسپنسری بھی کام نہ کر رہی ہو۔ اس جرم کی سزاکی لپیٹ میں حکومتیں جب بھی آئیں گی تو ان کو کوئ بھی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ 

کاروبار پر قبضہ:۔

تمام بڑے اور بنیادی کاروباروں پر سیاسی لوگوں کا قبضہ نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کو اپنے کاروباروں کے پھیلانے میں استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔ کاروبار کرنا کوئ جرم نہیں مگر اس پر عام عوام کے دروازے بند کر دینا یقیناً ایک جرم ہے ۔ تمام  عوامی عہدوں پر فائز لوگ جب اپنے کاروبار کو پھیلانے کیلئے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہیں تو مساوی مسابقت کو نقصان پہنچتا ہے، معاشرے میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور سرمائے کا پھیلاوٴ محدود ہو جاتا ہے اور عمومی طور پر غربت بڑہ جاتی ہے ۔ ملک میں کاروباری حالات ٹھیک نہیں ہوتے لیکن چند وزیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔

قانون قدرت ہے کہ ہر جرم کی سزامل کر رہتی ہے۔ جتنی دیر ہو رہی ہے اس میں یقیناً اتی ہی سختی ہوگی اور شاید قدرت ان کو سدھرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے ۔ کئ حکمرانوں کے نشان مٹ چکے ہیں اور باقیوں کے مٹنے والے ہیں اگر انہوں نے اپنے جرائم کی اصلاح نہ کی تو ان کی نسلیں انہی پولیس والوں ، انہی ڈاکٹروں اور انہی بے بس عوام کے ہتھے چڑہیں گے کیوںکہ اگرقرآن سچا ہے تو اس میں کہا گیا ہے کہ الللہ تعالٰی اپنے قوانین کو تبدیل نہیں کرتا ۔یقیناً قدرتی انتقام متحرک ہوگا اور مجرم لوگ پنے مفادات کےساتھ کہیں دفن ہو جائیں گے ۔