صفحات

جمعہ، 14 اگست، 2015

ہم زندہ قوم ہیں، آئیں پھر سے جیئں

ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اس میں کوئ شک نہیں کہ زندہ قوم ہیں۔ ہم روز بیدار ہوتےہیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں مگن رہتےے ہیں ۔ ہم ہر روز مشکل ترین حالات کا سامنا کرتے ہیں اور پھر ان سے گزر جاتے ہیں ۔ ہمیں ناکام ریاست قرار دینے کی تیاری کی جاتہ ہے مگر ہم پھر بھی چلتے رہتے ہیں ۔ 
ہمارے ملک کے کاروباری ادارے ترقی بھی کرتے ہیں اور آگے بھی بڑہتے ہیں ۔  ہم روز سڑکوں پر اندھا دھند گاڑی چلاتے ہیں اور پھر بھی اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں ۔
پھر ہم مضطرب کیوں ہیں، کہیں ہم بہت بھولے ہیں اور کہیں ہم انتہائ چالاک ہیں ۔ کہیں ہم خشک سالی سے مر جاتے ہیں اور کہیں ہم پانی میں ڈوب کر مر جاتے ہیں ۔ کہیں سڑکوں پر خالی پیٹ کو بھرنے کیلے بھیک مانگ رہیے ہیں تو کہیں ہم کھا کھا کر مر رہے ہیں ۔ کہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے رسول کے نائب ہیں تو کہیں ہم ہر کسی کو الللہ کا بندہ ماننے کو ہی تیار نہیں ۔

آئیں پھر سے جیئں ۔۔ ہم زندہ قوم ہیں

صبر سیکھ لیں۔۔ پودا لگا کر اس پودے کے بڑے ہونے کا انتظار کریں تا کہ پھل کھا سکیں ۔ سڑک پر سگنل بند ہونے پر سکون کے دو سانس لیں تاکہ زہنی اضطراب سے بچ جائیں ۔ راستے پر چلتے ہوئے رک کر دوسرے کو راستہ دے دیں ۔ آئیں ہم سب پر رحم کرنا سیکھ لیں تاکہ ہم پر رحم کیا جائے ۔ آئیں ظلم کرنے سے رک جائیں تاکہ ہم بھی زندگی میں سکون دیکھ سکیں ۔ زندگی کی دوڑ میں دو چار لمحے رک کر تنہائ میں بیٹھ کر اپنے رب سے سکون کی التجا کر لیں ۔ اور جب ہم یہ سمجھیں کہ ہم مشکل میں گھر گئے ہیں تو اپنی انا اور تکبر سے باہر آجائیں ۔ جب سمجھنے لگیں کہ اتنی محنت کے بعد بھی پیسے کم پڑتے ہیں تو کچھ اور بھی تو سوچیں کہ کہیں محنت ہی غلط سمت میں کر رہے ہیں ۔ سب کچھ کرنے کرنے کے بعد، صرف ایک بار دیوار سے ٹیک لگا کر سوچیں کہ آخر کس کیلئے ہم سب کچھ کر رہے ہیں ؟ اور اگر سکون نہیں مل رہا تو زرا راستہ تبدیل کر لیں  زرا سا صبر کرنا سیکھیں ۔ پودا لگا اس کیے بڑے ہونے کا انتظار تو کریں ۔۔

جشن آزادی مبارک