صفحات

پیر، 5 جنوری، 2015

میں پاک فوج کو سلام پیش کیوں نہ کروں

ہم نے جب سے پشاور کا سانحہ دیکھا ہے تو ہم سب غم میں ڈوبے ہوئے ہے ۔ میں نے اس واقعے کے بعد لوگوں کے خیالات بدلتے دیکھے ہیں ۔ لوگ اب اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گرد عناصر کو اب مکمل طور پر صاف کر دینا چاہئے۔ 
ہمیشہ کی طرح سیاست دانوں کی نااہلیت ثابت ہو گئ ہے۔جو رپورٹ میں نے سوشل میڈیا پر دیکھی ہے اور جس میں خیبر پختونخواہ حکومت کو یہ بتایا گیا تھا کہ پشاور کے سکول پر حملے کی منصوبہ بندی ہوگئی ہے تو یقیناٴ حکومت خیبر پختونخواہ سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے کیا کیااورمرکزی حکومت اتنے عرصے تک دہشتگردوں کو سزائیں کیوں نہیں دلوا سکیں۔
 لیکن قوم کے پاس اب بھی ایک امید کی کرن ہے اور وہ ہے افواج پاکستان۔اس سانحے کے بعد پاک فوج نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ یقینی طور پر متوقع تھا۔ فوج نے کاروائیاں تیز کر دیں اور لگتا ہے کہ کئ پیچیدہ معاملات پر واضع اور کھلے موقف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
فوجی عدالتوں کا قیام بھی اسی ردعمل کے طور پر سامنےآرہاہے ۔ مجھے نہیں پتا جمہوریت کے دعوے دار اس کو کیوں قبول کر رہے ہیں اور شاید ان کے اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اگر جمہوری حکومتیں انصاف کے نظام کی درستگی کی کوششیں کرتی نظر آتیں تو اس متوازی نظام کی ضرورت نہ ہوتی اور عوام کو بالعموم سستااور فوری انصاف مل رہا ہوتا۔ 
عوامی جمہوری حکومتیں پچھلے سات سال میں عوام کو جس جمہوری نظام کو نافز کرنے کی نوید سنا رہی ہے اس جمہوری نظام میں آج تک کبھی بھی سارے سیاسی رہنما اس طرح اکٹھے نہیں بیٹھ سکے۔ ان سب کو یہ توفیق نہیں ملی کہ یہ اکٹھے ہو جائیں اور پاکستان میں نظام انصاف کی اصلاح کیلے کوئ طرقہ کار وضع کر سکیں، کوئ بل منظور کر سکیں یا کوئ آرڈیننس ہی لے آئیں ۔یہ سب جانتے ہیں کہ اگر عام عدلیہ مضبوط ہوتی ہے تو ان کے جاتی امرا، بنی گالا اور کلفٹن کے محلات محفوظ نہ رہیں گے۔ یہ سب جمہوریت کے دعویدار اب فوجی عدالتی نظام کو نافز کرنا چاہتے ہیں کی ان سیاسی جدوجہد جاری رہ سکے۔ اور وہ عوام کے سامنے سرخرو ہو سکیں ۔ 

پاک فوج کی واضع وابستگی نے یہ بات بھی ثابت کر دی ہے کہ افواج کو کام کروانا آتا ہے اور اگر ان کو کام کروانا آتا ہے تو ہمارے سیاسی رہنما کب سیکھیں گے کہ عوام کو بھی تیز رفتار انصاف چاہئے اور وہ برسوں تک تھانے اور کچہری کا چکر نہیں لگا سکتے ۔ اگر موجودہ جمہوری نظام بنیادی انصاف فراہم نہیں کر سکتا تو میں کیوں جمہوریت کی تمنا کروں اور کیوں اپنے سیاسی رہنماوں کےمفادات کا تحفظ کروں۔