میں جب سے لاہور منتقل ہوا ہوں تو لاہور کے کھانوں کی بہت تعریف سنی ہے۔ اور کئ بار تجربہ بھی کیا اور اندازہ ہوا کہ لاہور کے کھانوں میں جو لزت اور زائقہ ہے وہ یقناً خاص ہے۔
اسی طرح کچھ دن پہلے ایک دوست کے ساتھ لاہور کا مشہور "ہریسہ" کھانے کا اتفاق ہوا ۔ میرا دوست مجھےجب اس دکان پر لے گیا تو اس نے بتایا کہ یہ ہریسہ دو نسلوں سے اسی دکان میں چل رہا ہے اور یہ اسی طرح مشہور ہےجیسے کئ سال پہلےمشہور تھا ۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئ کہ ہمارے ہاں کئ کاروبار نسل در نسل چل رہے ہیں جو کہ ایک مثبت بات ہےاور اس روایت کو اور آگے بڑھنا چاہئے ۔
ہریسہ کی دکان میں پہنچ کر میں شدید کشمکش کا شکار ہو گیا ۔ دکان کی حالت کسی بھی طرح ایک کھانے کی جگہ نہیں لگ رہی تھی۔ یہ تو ایک انتہائ پرانی دکان تھی اور صفائ کا کوئ خاص انتظام نظر نہیں آرہا تھا۔ ہاتھ دھونے کی جگہ اتنی گندی تھی کہ ہاتھ دھونے کا دل نہیں کر رہا تھا ۔ بیٹھنے کیلیئے کرسیاں بھی صاف نہیں کی گئیں تھیں اور برتنوں کی صفائی دیکھ کر تو دل ویسے ہی بھر گیا ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ جس نسل نے دکان کا آغاز کیا تھا اس کے بعد کسی میں ترقی کا شعور نہیں آیا ۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ایک بات سمجھ میں آگئی کہ اس جدت پسندی کے دورمیں ایسے کاروبار کتنا عرصہ تک زندہ رہ سکتے ہیں جب کہ ان کے پاس کسٹمر سروس کا کوئ تصور ہی نہیں ہے۔ ایسے کاروباری حضرات پر زمانے کی تبدیلی کے کوئ اثرات مرتب نہیں ہو تے ہیں۔
پھر میں نے سوچا کہ یہ صورتحال تو کئی جگہ موجود ہے ۔ جو سائیکل ہم نے بچپن میں دیکھی ہے اس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئ اور نہ ہی کوئ اس میں اضافی سہولت مہیا کی گئ ہے ۔ جو موٹر سائیکل ہم نے کئی سالوں پہلے تیا ر کی تھی وہ اب بھی یہاں جوں کی توں بیچی جا رہی ہے۔ اس کے بر عکس کئ بیرونی ممالک اپنے گاہکوں کو مایئل کرنے کیلئے ہر سال نئے فیچرز کے ساتھ اپنی مصنوعات ہمارے ممالک میں بھیجتے ہیں اور ہمارے کاروباری اور صنعتکار صرف برا بھلا کہنےکے سے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
جو کاروبار بھی ہمارے معاشرے میں ترقی کرتے نظر آتے ہیں وہ سب کے سب وقت کی آواز کو سنتے ہیں اپنے مصنوعات میں جدت لاتے ہیں اور نئے تجربات کر کے کسٹمرز کو متوجہ کرتے ہیں اور یوں آگے بڑھتے ہیں ۔
چین کی مصنوعت کی بھر مار کے پیچھے ایک بہت بڑی پروڈکٹ ریسرچ نظر آتی ہے ۔ ایک ہیٹر کے ساتھ صرف ایک پنکھا لگانے سے ایک نئی پروڈکٹ بن جاتی ہے اور ایک مقابل کی کمپنی بند کی جا سکتی ہے۔ہم گیس ہیٹر بنانے والی فیکٹریاں چلاتے ہیں مگر پھر بھی جاپانی گیس ہیٹر کو ترجیح اس لیے دیتے ہیں کی انہوں نے وقت کے ساتھ اس میں بدلاو کیے اور اس کی افادیت میں اضافہ کیا۔ ہمارے بزرگ اب بھی موٹر سیائیکل کو "کک"مار مار کر بیزار آجاتے ہیں مگر ہماری موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیا اس میں ایک عدد "سلف اسٹارٹر" لگانے کا تجربہ نہیں کر سکتی ہیں ۔
یہ "انوویشن " ہمارے معاشرے میں کب آئے گی۔ ہماری پچاس سالہ سائیکل کب بدلے گی، ہماری گاڑی عالمی معیار پر کب آئے گی، ہمارے پنکھے میں جدت کب آئے گی۔ ہم کب نیا ہیٹر ایجاد کریں گے۔ ہمارا UPS کب توانائی بچانے والا بن سکے گا ؟
یہ سب سوچتے ہی ہریسہ سامنے آیا اور ہم نے اسے کھانا شروع کردیا اور پانی کی درخواست کی جو کہ ہریسہ ختم ہونے اور بل کی ادائیگی تک نہ دستیاب ہو سکا۔ ہم پانی کے بغیر پیٹ بھر کر اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر نکل پڑے۔