انسانی جسم، انسان کی غذا اور سوچ کا عکاس ہوتا ہے ۔ صحتمند جسم یقناً صحتمند غذا اور صحتمند سوچ کی علامت ہوتا ہے ۔ صحتمند غذا کی فراہمی ایک مکمل نظام کے تحت ہی ممکن ہوتی ہے۔ عقل رکھنے والی قوموں نے اپنے معاملات میں غذا کے معاملے پر بہت توجہ دی ہے اور تحقیق و جستجو کے ذریعے نئ جہتوں کو ڈھوند نکالا ہے۔
ایک وقت پر یہ سوچا گیا کہ شاید نوع انسانی گھی کی کمی کا شکار ہو جائے گی تو مصنوعی گھی ایجاد ہوا اور سمجھا گیا کہ یہ اصلی گھی کا متبال ہے۔ اصلی گھی میں تو انسانی ضروریات کے وہ اجزا بھی موجود تھے جس کا انسان کو ادراک بھی نہیں تھا مگر مصنوعی گھی صرف شکل میں گھی سے ملتا تھا پھر یہ حل ڈھونڈا گیا کہ اس مصنوعی گھی میں کچھ وٹامن ملا دئے جائیں ۔ ترقی یافتہ اقوام نے تو اس پر سختی سے عمل کروایا مگر ہم جیسے ممالک جہاں لالچ اور حوص کو صحت پر فوقیت حاصل تھی وہاں گورنمنٹ کے اہلکاروں نے زہریلے گھی کے ڈبوں کو ہی فیکٹریوں سے بطور رشوت قبول کیااور یوں یہ کھوکھلے گھی کے ڈبے عام گھروں میں پہنچ گئے ۔ قوم اس گھی کو کھاتی گئی اور ہر نئے دن کے ساتھ صحت سے دور ہوتی گئی ۔ اب ہر بندہ اگر اپنا وٹامن کا ٹیسٹ کروائے تو وہ ہر اس ضروری وٹامن کمی کا شکار ہوگا جس سے وہ صحت مند زندگی گزار سکتا ہے ۔
سبق یہ پڑھایا گیا کہ انسان ہزاروں سالوں سے جس غذا کے زریئے اس دنیا میں زندگی گذار رہا ہے وہ سب جدید تحقیق سے دور تھی اور بالکل بھی مناسب نہیں تھی ۔
گھی تو صرف ایک مثال ہے اگر ہم باقی غزاوں کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی یہی حالت ہے ۔ بھائی اگر دودھ خراب نہیں ہو رہا ہے تو یہ اس کی خوبی نہیں بلکہ وہ تو دودہ ہی نہیں، دودہ کو ایک مدت کے بعد خراب ہونا ہے۔ یہی حالت مرغی،انڈہ،مچھلی اور تمام کھانے پینے کی اشیا کی ہے ۔
اب اگر آپ بازار سے ڈبل روٹی لینے جائیں اور اس پر لکھا ہو کہ اضافی وٹامن کے ساتھ تو سمجھ لیں کہ وہ بالکل خالی ہے وہ صرف پیٹ کی بھوک کو مٹا ئے گی لیکن آپکی غزائی ضرورت پورانہیں کر سکتی ہے۔ اور ساتھ میں کوئی طاقت کا شربت بھی لے لیں ۔
اب اگر آپ بازار سے ڈبل روٹی لینے جائیں اور اس پر لکھا ہو کہ اضافی وٹامن کے ساتھ تو سمجھ لیں کہ وہ بالکل خالی ہے وہ صرف پیٹ کی بھوک کو مٹا ئے گی لیکن آپکی غزائی ضرورت پورانہیں کر سکتی ہے۔ اور ساتھ میں کوئی طاقت کا شربت بھی لے لیں ۔