صفحات

منگل، 7 اکتوبر، 2014

ہر چیز زہر سے نہیں مرتی کبھی گڑ بھی استعمال کریں

میرا بچپن گاوٴں میں گزرا۔ گاوٴں کی پسماندگی کی حالت یہ تھی کہ میں پانچویں جماعت میں پڑہتا تھا جب ہمارے گاوٴں میں بجلی آئی تھی۔ 
گاوٴں کی زندگی میں کیڑے مکوڑوں، زیریلے سانپوں اور تمام پالتو جانوروں کو اپنے ماحول کا حصہ دیکھا اور اس سے کوئی ڈر یا خوف نہیں محسوس کیا۔ گھر کے کمروں کے چھت کچے تھے اور لکڑی کے شہتیروں سے بنے ہوئے تھے۔ گھر کی چھت میں چڑیوں کے گھونسلے ایک عام سی بات تھی اور وہ چڑیاں اس ماحول کا حصہ لگتی تھیں  اور اگر کبھی زیادہ تنگ کرتی تھیں تو کچھ روٹی کے ٹکڑے نیچے پھینک دیے جاتے اور وہ ان کو اٹھا کر خاموش ہوجاتیں۔ ان چڑیوں کے انڈوں اوربچوں کے شکار کی تلاش میں کبھی کبھار سانپ بھی آجاتے تھےچڑیاں ایک دم مخصوص آواز میں مدد کو پکارتیں تو ہماری دادی اماں اچانک سے اٹھتی تھیں اور ایک مخصوص ڈنڈا اٹھاتیں، جس کے سرے پر ایک مخصوص لوہے کا ٹکڑا لگا ہوتا تھا  اور وہ سانپ کے پیٹ میں گھونپتی تھیں اور سانپ کو زمیں پر گرا کر مار دیتی تھیں۔ یوں چڑیوں کا شور ختم ہو جاتا، گویا قدرت خود ہی الارم کا کام کرتی تھی اور انسان چڑیوں کو اور چڑیاں انسان کو بچاتی تھیں۔

یہ سب یاد آگیا، کیونکہ میرا بیٹا چیونٹیوں کو مارنے کیلیے ایک زہریلا سپرے اٹھا لایا تو میں نے اسے فوراً روکااور اپنی دادی اماں کا طریقہ کار بتایا۔ ہم نے دیکھا تھا کہ جب کبھی چیونٹیاں نکل آتی تھیں تو دادی اماں فوراً چیونٹیوں کے بل کے نزدیک آٹے کی مٹھی ڈال دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ان چیونٹیوں کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا اگر ہم ان کی بھوک نہ مٹائیں اور چیونٹیاں آٹا اٹھانے کے چکر میں تنگ نہیں کرتی تھیں اور واپس بل میں گھس جاتی تھیں ۔ یہ ہے وہ فطرت کے ساتھ انسان کا تعلق جس کی وجہ سے انسان نے لاکھوں سال بغیر کسی پیسٹیسائیڈ Pesticide ، بغیر کسی Antiseptic ، اینٹی بائیوٹیک Antibiotic اور بغیر کسی بوٹی مار سپرے کے گزارے ہیں ۔ 
اب جب میں ہر جگہ جراثیم کش صابون اور جراثیم کش سپرے کے اشتہار دیکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اب انسان نے فطرت کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے اور فطرت کے یہی کارندےاس کے دشمن ہو گئے ہیں اور اب یہ دکھا یا جاتا ہے کہ جراثیم دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں ۔کبھی مچھر انسان کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی اور فطرت کا کارندہ انسان کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔اور انسان پہلے سے طاقتور زہر کی ایجاد شروع کر دیتا ہے۔
اب مجھے یہی دشمنی انسان کے خون میں سرایت کرتی نظر آتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے  کہ جو دین ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے انتہائی محبت کے ساتھ پھیلایا تھا اور لوگوں کو محبت کی زبان سے قائل کیا تھا اسی نبی کریم ﷺ کے ماننے والے دین میں اختلاف پرجان سے مارنے کو عین دین سمجھتے ہیں ۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی رد عمل ظاہرنہیں ہوگا ؟

ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

پاکستان میں3G کا مستقبل اورمواقع

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں 3G موبائیل ٹیکنالوجی کی دستیابی شروع ہو چکی ہے اور اب ہم اپنے موبائیل فون پر   صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ تیز انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں ۔ گو کہ ابھی تک اس سروس کی دستیابی بہت وسیع پیمانے پر نہیں ہوئی ہے مگر اب متعارف ہو چکی ہے تو آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہو جائے گی۔ 

اب ہمیں اس بات پر سوچنا ہے کہ اس سے کیا فائیدہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ کئی لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کی عوام میں اس کی مقبولیت زیادہ نہیں ہوگی اور اس کا کوئی مناسب کاروبار میں استعمال نہیں ہو سکتا ۔ میری رائے میں جتنا بڑا یہ ملک ہے اور جس قدر تیزی سے موبائیل کا پھیلاوُ پاکستان میں ہوا ہے 3G کے پھیلاوُ کی رفتار اس سے کافی زیادہ  تیز ہوگی۔ 
ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ سب رابطہ رکھنا چاہتے ہیں  انٹرنیٹ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو صرف مناسب سروسز کی فراہمی ضروری ہے جو ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کرسکے

بدقسمتی سے ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کا سارا کاروبار کراچی، لاہور ، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں ہی ہوتا ہے اور باقی دور دراز کے علاقوں کو ہم نے کبھی بھی وہ اہمیت نہیں دی تو ہماری سوچ محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ 

انٹرنیٹ کی مقبولیت اب پاکستان کے ہر شہر اور گاوُں میں ہو چکی ہے اور اس کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔ اور جیسے کہ ابھی بھی انٹرنیٹ پر صرف ایک بڑی کمپنی کی اجارہ داری قائم ہے اور اسی وجہ سے اپنے گاہکوں کو تسلی بخش معیار مہیا نہیں کر سکی ہے اور جو WiMax (وائی میکس) کمپنیاں بھی آئی وہ اپنی سہولیات کو چند بڑے شہروں سے آگے نہیں لے کر جاسکے اور جہاں پر ان کے سروس دستیاب ہے وہاں بھی اکثریت مطمعن بالکل نہیں ہے اور انترنیٹ کا سنجیدہ کسٹمرز ہمیشہ پریشان ہی رہتے ہے جو کہ مجبورہیں کہ غیر تسلی بخش سروس استعمال کریں ۔ وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی مناسب سروس دستیاب ہو تو اس سے استفادہ کر سکیں اسی وجہ سے تمام اٹرنیٹ سروس پروائڈرز ابھی تک گاہکوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی آفرز ہی دیتے رہتے ہیں ۔

موبائیل کمپنیوں کا نیٹ ورک اب بہت وسیع ہو گیا ہے اور ان کا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک بھی کافی مضبوط ہے اور اگر یہ اپنی 3G سروس کو با قاعدہ انٹرنیٹ سروس کے طور پر علیحدہ متعارف کروائیں تو یہ بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرلیں گے اور اگر معیار کو بہتر رکھا جائے اور کسٹمر کا اطمینان حاصل کیا جائے تو شاید بہت جلد موجودہ انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں ۔

اس سارے منصوبے میں فتح اس کی ہو گے جو
  •  اپنی سروس کو جلد سے جلد دور دراز کے علاقوں میں مہیا کرے گا
  •  اپنی سروس کے معیار کو کبھی گرنے نہیں دے گا
  • اور مناسب پیکج لائے گا ۔
 یقیناً یہ کام مشکل ہے مگر نا ممکن بالکل بھی نہیں ۔ اور یقیناً نت نئے تجربات سے ہی سیکھا جئے گا اور وہی فائدے میں رہے گا جو یہ تجربات کرتا رہے گا اور تجربات کا حوصلہ رکھے گا ۔


جمعرات، 4 ستمبر، 2014

آئی کلاوڈ(iCloud) ہیک اور احتیاطی تدابیر

انٹرنیٹ سروس کا کوئی نہ کوئی واقعہ دنیا میں گردش کرتا رہتا ہے ۔ جیسے جیسے انٹرنیت کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور انٹرنیٹ پر نت نئی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں تو ایسے ہی انٹرنیٹ پر ہیکنگ کے واقعات میں روز ہروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 
ابھی اطلاعات آرہی ہیں کہ کچھ دنیا کے مشہور فلمی ستاروں کی تصاویر ایپل کے آئی کلاوڈ سروس سے چوری ہو گئی ہیں ۔ جو کہ ایک انتہائی تشویشناک واقعہ ہے ۔ کیونکہ اس دور میں ہم سب ہی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور اپنی ذاتی تصاویر نہ صرف انٹریٹ کے ذریعے بھیجتے اور وصول کرتے رہتے ہیں بلکہ اٹرنیٹ کی مختلف کلاوڈ سروسز پر محفوظ بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ اب وقت کی ضرورت بھی بن گئی ہے ۔ تصاویر کے علاوہ  ہم بہت اہم دستاویزات بھی انٹرنیٹ پر محفوظ کرتے ہیں جن کے اندر بہت اہم کاروباری اور ذاتی معلومات بھی ہو سکتی ہیں جیسے کہ اب بہت سارے موبائیل فون ہماری طبی (میڈیکل) معلومات بھی محفوظ کرتے ہیں ۔ 

تو وقت کے ساتھ انٹرنیٹ کلاوڈسروس کی سیکیورٹی کی اہمیت کا احساس بھی بڑھتا جا رہاہے ۔ اور کلاوڈ سے ڈاٹا چوری ہونے والے واقعات سے یقیناً کلاوڈ سروسز پر اعتماد کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔

تازہ واقعہ میں ایپل کمپنی کا کہناہے کہ ہمارا نظام درست کام کر رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کسی نے پاسورڈ کوڈ چوری کر لیا ہو اور پھر اسے استعمال کر کے تصاویر اور دوسرا ڈیٹا چوری کر لیا ہو۔ وجہ کوئی بھی ہو اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پاسورڈز کو محفوظ رکھیں ۔ 

حقیقت یہ ہے کہ پاسورڈ کئی طرح سے چوری ہو سکتا ہے ۔

  • بڑی وجہ آجکل وی پی این (VPN) سروسز بھی ہو سکتی ہیں جن کے زریعے تمام ڈاٹا کسی ایک نامعلوم کمپنی کے کمپیوٹرز سے ہو کر گزرتا ہےجس کے بارے میں ہمیں کوئی پتہ نہیں ہوتا ۔
  • یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں غیر محفوظ مفت کا انٹرنیٹ وائی فائی (WiFi)استعمال کر لیا ہو اور وہ دراصل کسی ہیکر نےمعلومات چوری کرنے کیلئے اپنا جال پھیلا رکھا ہو ۔
  • ایک اور اہم وجہ جو سمجھ میں آسکتی ہے وہ سی سی ٹی وی (CCTV)کیمرہ ہیں جو کی سیکیورٹی کے نام پر ہر جگہ لگے ہوئے ہیں اور جب کوئی بھی کیمرہ کے سامنے موبائیل کا پاسورڈ ڈالے گا تو کیمرہ پر اس کی ریکارڈنگ ہو جائے گی اور اسے دیکھ کر پاسورڈ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔
  • کوئ ایسی ایپ بھی ہمارا ڈاٹا چوری کرسکتی ہے جو کہ ہمارے موبایئل پر موجود ہو اور ہمیں احساس بھی نہ ہو ۔ 

اب ہمیں یہ بھی احساس ہو رہاہے کہ شاید انٹرنیٹ پر معلومات کو محفوظ رکھنے کیلئے پاسورڈ کوئی قابل بھروسہ طریقہ نہیں ہے اور وقت کے ساتھ نئے طریقے بھی دریافت کرنے ہونگے اور اس وقت تک ہمیں جس حد تک ممکن ہو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہونگی تاکہ محفوظ رہیں۔

ہفتہ، 19 جولائی، 2014

انقلاب چاہئے یا اخوت ؟

ایک زمانےسے سن رہا ہوں کہ انقلاب آ رہا ہے ۔ میں نے بھی باقی لوگوں کے ساتھ انقلاب کی آس لگا رکھی ہے۔ اور ذہن میں یہ بٹھا دیا ہے کہ بہت سارے مختلف کام انقلاب کی آمد تک ممکن ہی نہیں ۔اور انقلاب کیسے آئے گا جبکہ انقلاب کی تمام تر کوششیں کچھ اپنوں کی نادانیوں اور کچھ اغیار کی سازشوں کی وجہ سے ناکام ہو گئ ہیں۔ ہر وہ قوت یا تحریک جو انقلاب کا نعرہ لگا کر آگے آئی اسے ناکامی کا سامنا ہوا۔ پھر انقلاب کیسے آئے۔
ایک بات جو ہمیں اپنے پیارے نبئ رحمت صل اللہ علیہ وصلم کی حیاتِ طیبہ سے ملی وہ ہے بے داغ ماضی اور نظریہ پر مضبوط ایمان ۔ اگر ماضی بے داغ ہے اور نظریہ پر پختہ یقین ہے تو وہ بندہ ضرور انقلاب لے آئے گا ۔ کیونکہ ایسے رہنما پر عوام کو یقین ہو گا اور اغیار کی سازش اس رہنما پر چل نہیں سکے گی ۔
اب پھر انقلاب کیسے آئے؟ سوال وہیں پر موجود ہے اور جب تک انقلاب نہیں آجاتا تو ہم اسی طرح ظلم کرتے رہیں اور ظلم برداشت کرتے رہیں ؟ اور اگر اس سفر میں کئی صدیاں گزر جائیں تو ہم عام عوام اپنا ضمیر،دین،ایمان اور اخلاص بیچتے رہیں ؟ اور سب سے بڑی بات غریب عوام کی بے چارگی اور سسکیاں ایسےہی دیکھتے رہیں اور سسکتے رہیں؟ 
پھر کچھ یوں ہوا کہ ایک دن ایک افطار کا دعوت نامہ ملا ۔ اور ایک دوست کے اصرارپر وہاں چلا گیا ۔

جب کارروائ شروع ہوئ تو خیال آیا کہ یہ کیا کہانی ہے۔۔ ایک  شخص ڈاکٹرامجد ثاقب ،چودہ سال پہلے ایک کام شروع کرتا ہے اور اس نے پانچ لاکھ سے زائد افراد کواپناروزگار چلانے کیلئے نو ارب روپے سے زائد بلا سودقرضے دے دئے ہیں ؟ یہ کیا ہے؟ جب اس معاشرے میں لوگ بھیک تو دیتے ہیں مگر مزدوری پوری نہیں دیتے ۔ جب ناکام زندگی کے طعنے تو دیتے ہیں مگر کوئی اپنے پاوں پر کھڑا نہیں کر سکتا۔ اور حیرت کی بات۔۔۔ ان قرض لینے والوں میں تقریبا سو فیصد لوگوں نے واپس بھی کر دئے ہیں ۔۔
میں کیسے مان لوں؟ مجھے تو یہی سمجھایا گیا ہے کہ سودی نظام کی جکڑ سے چھٹکارہ نا ممکن ہے اور یہاں ہم نے تو یہی سبق سیکھا ہے کی جب کوئ پیسے لے لیتا ہے تو واپسی بہت مشکل ہوتی ہے ۔ بلا سود قرضہ تو اس قوم کا خواب ہی بن کر رہ گیاہے۔ مگر یہ کام اخوت فا ونڈیشن کی ٹیم نے کر دکھایا ۔

مگر پتہ چل گیا کی یہی انقلاب ہے جو پانچ لاکھ گھرانوں کی زندگیوں میں آگیا ہے  اور پانچ لاکھ خود مختار لوگ اور کئ لوگوں کو خودمختار بنانے کیلیے تیار ہیں اسطرح اور نہ جانے کتنے اور لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آیا چاہتا ہے۔ مجھےتو اپنے سوال کا جوب مل گیا ۔۔۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ انقلاب لانا چاہتا ہے تو وہ صرف کام شروع کردے وہ کوئ اخوت بنا لےیا کسی اخوت کا حصہ بن جائے اور اس معاشرے میں رہتے ہوئے انقلاب لانا شروع کردے۔اخوت کی مثال نے عملاً یہ ثابت کر دیا کہ انقلاب فقط سیاسی تبدیلی کا نام نہیں ہے سماج میں ہمہ جہت تبدیلی کیلیے ضروری ہے کہ ہر شخص جہاں تک ممکن ہو انصاف کے انقلاب کیلیےانصاف لینے میں لوگوں کی مدد شروع کردے، تعلیم میں انقلاب کیلیے لوگوں کو تعلیم دینا شروع کر دے، صحت کے انقلاب کیلیے لوگوں کو صحت کی سہولتیں دینا شروع کردے تو وہ انقلاب کے سفر پر گامزن تو ہو جائے گا ورنہ اقتدار کی تلاش میں تو کبھی سفر شروع ہی نہیں ہوگا۔ یقیناً معزز ہیں وہ لوگ جو انقلاب کے سفر پر گامزن ہیں۔
   

جمعرات، 22 مئی، 2014

مجھے کیسا میڈیا چاہیے؟

خدا خدا کرکے وہ وقت آگیا ہے جب ہم اس پر بحث کر رہے ہیں کہ اس وقت ہمارا آزاد میڈیا ہماری ضرورت پوری کر رہا ہے یا نہیں ۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے معا شرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ شاید ہمیں ابھی مثبت اور منفی کا ہی نہیں پتا ۔
جب سے ہمارا میڈیا آزاد ہوا ہے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ یہ ہوتی ہے آزادی۔ اگر یہ آزادی ہے تو پھر ہم اس آزادی سے دور ہی بہتر تھے ۔
ہم نے سیکھا کہ بریکنگ نیوزہی سب کچھ ہوتی ہے اور ہر لمحہ بریکنگ نیوز کا ہوتا یے۔ ہم نے سیکھا کہ گلا پھاڑ کر اور چیخ چیخ کر اگر خبریں پڑہی جائیں تو وہ بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ انسان کے مردہ جسم کے ٹکڑے دکھانے زیا دہ خوف پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے میڈیا کے ذریعے جانا کہ ہمارا ملک تو تباہ ہو چکا ہے اور یہ جو ہم ہر روز دفاتر اور دکانوں اور کاروباری اداروں میں کام کاج پر جاتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ اور یہ ہمارے بازاروں اور مساجد کی رونق بھی ایک دھوکا ہے۔
ہم نے سیکھا کہ صرف سڑک پر ٹائر جلانے سے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔ اور رمضان میں سحر و افطارکے بعد نماز پڑہنے اور روزہ رکھنے سے زیادہ اہم کام رمضان کے اسلامی پروگرام دیکھنا ہے۔ 
ہم نے دیکھا کہ پڑوسی ملک کا سارا کلچر ہمیں اپنا لینا چاہیے اور ہماری کوئی شناخت نہیں رہی۔ ہم نے دنیا کہ تمام بڑے میڈیا کے اداروں کو سمجھایا کہ ایسے ہوتے ہیں ٹالک شوز اور اس جاہلانا طریقے سے قوموں کے بڑے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ مجھے سکھایا گیا کہ دنیا کی تمام مصائب ابھی ہیں اور اس سے پہلے ہزاروں سالوں سے دنیا میں سکھ ہی سکھ تھےاور ان مصائب کا کوئی حل نہیں ہو سکتا۔ 
ہماری قوم بھی فارغ ہی تھی اور کوئ کام تھا ہی نہیں کرنے کو، سو بزرگ خبروں کے پروگرام پر لگ گئے، خواتین فیشن شوز  اور ڈراموں میں مصروف ہوگئیں اور ہر بندے کا علیحدہ ٹیلی وژن سیٹ ہو گیا۔ بموں کی جھوٹی اطلاعات پر ہی آدھے دن بریکنگ نیوز چلتی رہی۔ قوم کی تربیت کرنے والا کوئی بھی فارغ نہیں رہا۔
 یوں قوم نے سب کچھ سیکھنے کے باوجو کچھ بھی نہیں سیکھا۔ قوم کو نہیں پتا کہ استاد کی قدر کیا ہوتی ہے ۔ قوم یہ سیکھنے سے قاصر رہی کہ جب مصیبت آجائے تو خودکشی کرنے کے بجائے واستعينوا بالصبر والصلاة (ترجمہ:مصیبت میں صبر اور نماز سے مدد لو) کی طرف رجوع کرنا چائیے ۔ قوم بیچاری کو کوئی بھی یہ نہ سکھا سکا کہ سڑک پر کار، سائیکل اور موٹر سائیکل کیسے چلاتے ہیں ۔ ٹریفک کے سگنل پر رکنا کیوں ضروری ہے۔ قوم کو پتا ہی نہیں چلا کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کیسے کریں ۔ میاں اور بیوی کے باہمی حقوق و فرائض کیا ہوتے ہیں ۔خواتیں کی عزت اور حرمت کی باتیں کر کے خواتیں کو شو پیس کے طورپر دکھایا گیا۔ ہمیں یہ سکھانے والا کوئ بھی نہیں رہا کہ آج کے دور میں کروڑوں کے بیڈروم میں خوش اور پر اعتماد زندگی کیسے گزاریں۔ ہمیں کم از کم اخلاقیات تو اس میڈیا نے اپنی جھوٹی ریٹنگ کے چکر میں بلکل بھی نہیں سکھائیں ۔  ساس اور بہو کو نہیں سکھایا گیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ پر سکون زندگی کیسے گزاریں بلکہ پڑوسی ملک کے گھریلو سازشوں سے بھر پور ڈرامے دیکھنے کو ملے۔ ہم یہ سیکھ ہی نہیں سکے کہ ستاروں کی چال پر چلنے کے بجائے وَأنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى  (ترجمہ:انسان کواس کی محنت کے سوا کچھ نہیں ملتا)پر توجہ دینا ضروری ہے۔   ہمیں کوئی تو سکھاتا کہ ترقی کی منازل طے کرنے کیلیئے کردار ایک برانڈ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں کسی نے نہیں سکھایا کہ جو عورت گھر کے کام کاج کرتی ہے اور ہزاروں لاکھوں روپے کی سروسز مہیا کرتی ہے وہ بھی ورکنگ وومین ہے۔ کاش ایسا میڈیا مل جائے جو کم از کم کچھ بنیادی چیزیں ہی سکھا دے ہمیں۔
کیا اب ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کیسا میڈیا چاہیے ؟


بدھ، 30 اپریل، 2014

موبائل فون کا استعمال اور ہماری صحت پر اثرات

آج کے دور میں کون ہے جو موبائل فون کے استعمال سے واقف نہیں ہے۔ یہ چھوٹا سا آلہ ہماری زندگیوں میں یوں آگیا جیسے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس ننہے آلے کا ہماری صحت پر بھی بہت سے اثرات ہیں ۔ جیسے ہر شے کے مثبط اور منفی اثرات ہوتے ہیں ،اور ہمیں کوئ بھی ٹیکنا لوجی استعمال کرتے ہوئے اس کے دونوں اثرات کو مد نظر رکھنا چاہیے تا کہ ہر آنے والی نئ ٹیکنا لوجی کے مثبت اثرات سے استفادہ حاصل کریں اور اس کے منفی اثرات سے بچتے رہیں۔
موبائل فون جس طرح کام کرتا ہے اس میں ریڈیا ئ شعا عیں خارج ہوتی ہیں ۔ ان کو سمجھنے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ آ پکے مائیکر ویو اون سے بھی وہی ریڈیائ شعاعیں خارج ھوتی ہیں جو کہ آپ کے کھانے کو فوری طور پر گرم کر دیتی ہیں ۔
اب اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ  جب آپ موبائل کو کان پر لگاتے ہوئے بات کر ریے ہوتے تو یہ شعاعیں آپ کے دماغ کو کتنا گرم کر دیتی ہونگی۔اگر آپ سامنے والی جیب میں موبائیل رکھتے ہیں تو سمجھ لیں کہ اس کےدل پر اثرات ضروری ہیں۔ 
اگر آپ کسی موبائل کمپنی کے ٹاور کے نزدیک رہتے ہیں جو کہ اتنی طاقت خارج کرتا ہے جس سے سینکڑوں موبائل فون کو سہولت فراہم کی جا سکتی ہے تو آپ اپنے د ماغ کے درجہ حرارت کا اندازہ خود ہی کیجے۔
آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ہر وقت غصہ کیوں آیا رہتا یے۔ بیگم اور بچوں سے کیوں معمولی باتوں پر گرما گرمی ہو جاتی ہے اور پر سکون نیند کیوں غائب ہو گئ ہے۔ یا داشت کیوں کم ہو ری ہے۔ شوگر کا مرض کیوں جلدی ہو رہایے ۔ وہ بچے جو ابھی اس دنیا میں آنے والے ہیں اور ابھی تک رحم مادر میں ہیں ان کی زہنی نشو نما پر یہ مائیکرو ویو اون کیسے اثر انداز ہوتا ہوگا ۔
اب اس سارے علم سے نفع کیسے حاصل کیا جائے ؟

۔ تار والا ہینڈ فری استعمال کیا جائے
۔ بچوں کو تو کان کے نزدیک فون لانا سخت منع ہونا چاہیے
۔ سپیکر فون کا استعمال بھی ٹھیک ہے
۔ سوتے وقت فون کو تیکئے کے نچے نہ رکھیں۔
۔ حاملہ خواتین اور بچوں کو فون سے دور رکھیں
۔ فون کا نشہ کم کرنے کی کوشش کریں
۔ ذہن کو پر سکون رکھنےکیلئے عبادات کا سہارا لیں
(یہ مضمون مختلف ذرائع سے حاصل کی گئ تحقیق کو اکٹھاکرکے لکھا گیا ہےاس کا مقصد صرف احباب کوایک اور پہلو سے آگاہ کرنا ہےجو کہ دنیا میں زیربحث ہے)  
  

جمعرات، 17 اپریل، 2014

ہارٹ بلیڈ اور مستقبل کا انٹرنیٹ

ویسے تو ہم آئے روز ہی کوئ نیا وائرس سنتے رہتے ہیں جو کہ کمپیوٹر سسٹم کو نقصان پہنچا تا رہتا ہے ۔ پہلے تو یہ وائرسز صرف یوزرز کو تنگ کرنے کا بہانا ہوتے تھے مگر اب ان وائرسزکے مقاصد بہت وسیع ہو گئے ہیں۔ ایک تو شریر بچے سیکھنے اور تجربات کرنے کیلیے سافٹ ویئر بناتے ہیں جو کہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ،کہانی یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔
مگر اب لوگ انٹرنیٹ سے ترسیل کیے جانے والے مواد پر نظر رکھتے ہیں۔ اس میں کریڈٹ کارڈ کی معلومات ہوتی ہیں اور ہیکرز ان کریڈٹ کارڈز کو استعمال کر کے مالی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ بنک اکاونٹ کی معلومات بھی انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہی ہوتی ہیں اور ہیکرز ان معلومات سے ان کھاتوں تک رسائ  حاصل کر کے خود مالی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
 موجودہ دورمیں جاسوسی کیلیے بھی ہیکنگ کو استعمال کیا جاتا یے ۔ اس مقصد کے حصول کیلیے ایسے سافٹ ویر تیار کیے جاتے ہیں جس میں چور دروازے رکھ دیے جاتے ہیں ۔ اسطرح سافٹ ویر بنانے والا غیر محسوس طریقے سے اپنے شکار کے کمپیوٹر سے معلومات چوری کرتا رہتا ہے ۔ یہ معلومات فوجی بھی ہو سکتی ہیں اور تجارتی بھی۔ یہ کسی دہشتےگردی کے منصوبے کو بے نقاب بھی کر سکتے ہیں کسی ملک کے انتہائ خفیہ منصوبے کو منظر عام پر لا سکتے ہیں اور کسی بڑے کاروباری ادارے کی مستقبل کی منصوبہ بندی کو بھی چوری کر سکتے ہیں۔
ایک اور بڑی خطرناک صورتحال اس وقت پیش آسکتی ہے جب سافٹ ویر کے اندر کوئ ایسا  نقص رہ جائے جو ہر کسی کی نظروں سے اوجھل رہے اور کوئ اس نقص کو استعمال کر کے دنیا میں کمپیو ٹراور اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے والوں کو نقصان پہنچا ئے یا ان کی معلومات کو چوری کرے۔ اس بار کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔ 
 ہم جو بھی  مواد انٹر نیٹ پر ترسیل کرتے ہیں وہ سادہ الفاظ میں ہوتا ہے جوکہ کوئ بہی پڑھ سکتا ہے ۔ اس مسئلے کے حل کیلیے ایس ۔ایس ۔ایل ۔(SSL)  نامی ٹیکنا لوجی ایجاد کی گئ تھی جس سے ترسیلی مواد کواسطرح توڑ موڑ (Encrypt) دیا جاتا یےکہ صرف موصول کنندہ ہی پڑھ سکتا ہے  ۔ مگر ہمیں کیا پتا تھا کہ اس میں ہی نقص نکل آئے گا اور کوئ بھی اس ترسیلی مواد کو پڑھ سکتا ہے اگر اسکو اس نقص کا پتہ چل جائے ۔ اب آپ سوچیں کہ تمام مالیاتی ادارے، ای میل فراہم کنندگان ،اور بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس ٹیکنا لوجی کو استعمال کرتے ہیں اور یہ سوچ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہمارا مواد محفوظ ہے  جوکہ حقیقت میں نہیں ہے۔ اور کوئ پتا نہیں کہ اس مواد کو کس کس نے پڑھا ہوا ہے اور کب سے کام ہو 
رہا ہے۔
یہ بہی ہو سکتا ہے کہ ہمارے پا س ورڈز (خفیہ کوڈز) کسی ہیکر کے پاس ہوں اور وہ مستقبل میں کبھی بھی اس کو استعمال کرلے ۔
یقیناٴ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے مگر اس سے زیادہ خوفناک یہ ہے کہ اس نقص کا علم جس ادارے کو تھا اس نے اس پر کوئ کاروائ نہیں کی ۔ میڈیا کے ذرائع کے مطابق اس اداے کا نا م ہے این۔ایس۔اے ۔ (.N.S.A) نیشنل سیکیورٹی ایجنسی۔  اس صورتحال میں تو پھر کوئ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جب وہ ادارے جو کہ سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں وہ ہی اس طرح کے خطرات سے نہیں آگاہ نہیں کرتے تو مستقبل کے خطرات سب کو نظر آرہے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ انٹرنیٹ کا مستقبل کیسا ہوگا ؟ کیا ہم اس نظام پر اعتبار کرسکتے ہیں جس میں ہماری ساری معلومات ای میل فراہم کنندہ کے پاس ہوں اور وہ غیر محفوز بھی ہو۔ یا ہمارے بنک کا انٹرنیٹ سسٹم ہی ہیک ہوا ہو یا وہ کوئ ایسا سافٹ ویئر استعمال کر رہے ہوں جو کہ غیر محفوظ ہو۔