صفحات

بدھ، 30 اپریل، 2014

موبائل فون کا استعمال اور ہماری صحت پر اثرات

آج کے دور میں کون ہے جو موبائل فون کے استعمال سے واقف نہیں ہے۔ یہ چھوٹا سا آلہ ہماری زندگیوں میں یوں آگیا جیسے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس ننہے آلے کا ہماری صحت پر بھی بہت سے اثرات ہیں ۔ جیسے ہر شے کے مثبط اور منفی اثرات ہوتے ہیں ،اور ہمیں کوئ بھی ٹیکنا لوجی استعمال کرتے ہوئے اس کے دونوں اثرات کو مد نظر رکھنا چاہیے تا کہ ہر آنے والی نئ ٹیکنا لوجی کے مثبت اثرات سے استفادہ حاصل کریں اور اس کے منفی اثرات سے بچتے رہیں۔
موبائل فون جس طرح کام کرتا ہے اس میں ریڈیا ئ شعا عیں خارج ہوتی ہیں ۔ ان کو سمجھنے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ آ پکے مائیکر ویو اون سے بھی وہی ریڈیائ شعاعیں خارج ھوتی ہیں جو کہ آپ کے کھانے کو فوری طور پر گرم کر دیتی ہیں ۔
اب اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ  جب آپ موبائل کو کان پر لگاتے ہوئے بات کر ریے ہوتے تو یہ شعاعیں آپ کے دماغ کو کتنا گرم کر دیتی ہونگی۔اگر آپ سامنے والی جیب میں موبائیل رکھتے ہیں تو سمجھ لیں کہ اس کےدل پر اثرات ضروری ہیں۔ 
اگر آپ کسی موبائل کمپنی کے ٹاور کے نزدیک رہتے ہیں جو کہ اتنی طاقت خارج کرتا ہے جس سے سینکڑوں موبائل فون کو سہولت فراہم کی جا سکتی ہے تو آپ اپنے د ماغ کے درجہ حرارت کا اندازہ خود ہی کیجے۔
آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ہر وقت غصہ کیوں آیا رہتا یے۔ بیگم اور بچوں سے کیوں معمولی باتوں پر گرما گرمی ہو جاتی ہے اور پر سکون نیند کیوں غائب ہو گئ ہے۔ یا داشت کیوں کم ہو ری ہے۔ شوگر کا مرض کیوں جلدی ہو رہایے ۔ وہ بچے جو ابھی اس دنیا میں آنے والے ہیں اور ابھی تک رحم مادر میں ہیں ان کی زہنی نشو نما پر یہ مائیکرو ویو اون کیسے اثر انداز ہوتا ہوگا ۔
اب اس سارے علم سے نفع کیسے حاصل کیا جائے ؟

۔ تار والا ہینڈ فری استعمال کیا جائے
۔ بچوں کو تو کان کے نزدیک فون لانا سخت منع ہونا چاہیے
۔ سپیکر فون کا استعمال بھی ٹھیک ہے
۔ سوتے وقت فون کو تیکئے کے نچے نہ رکھیں۔
۔ حاملہ خواتین اور بچوں کو فون سے دور رکھیں
۔ فون کا نشہ کم کرنے کی کوشش کریں
۔ ذہن کو پر سکون رکھنےکیلئے عبادات کا سہارا لیں
(یہ مضمون مختلف ذرائع سے حاصل کی گئ تحقیق کو اکٹھاکرکے لکھا گیا ہےاس کا مقصد صرف احباب کوایک اور پہلو سے آگاہ کرنا ہےجو کہ دنیا میں زیربحث ہے)  
  

جمعرات، 17 اپریل، 2014

ہارٹ بلیڈ اور مستقبل کا انٹرنیٹ

ویسے تو ہم آئے روز ہی کوئ نیا وائرس سنتے رہتے ہیں جو کہ کمپیوٹر سسٹم کو نقصان پہنچا تا رہتا ہے ۔ پہلے تو یہ وائرسز صرف یوزرز کو تنگ کرنے کا بہانا ہوتے تھے مگر اب ان وائرسزکے مقاصد بہت وسیع ہو گئے ہیں۔ ایک تو شریر بچے سیکھنے اور تجربات کرنے کیلیے سافٹ ویئر بناتے ہیں جو کہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ،کہانی یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔
مگر اب لوگ انٹرنیٹ سے ترسیل کیے جانے والے مواد پر نظر رکھتے ہیں۔ اس میں کریڈٹ کارڈ کی معلومات ہوتی ہیں اور ہیکرز ان کریڈٹ کارڈز کو استعمال کر کے مالی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ بنک اکاونٹ کی معلومات بھی انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہی ہوتی ہیں اور ہیکرز ان معلومات سے ان کھاتوں تک رسائ  حاصل کر کے خود مالی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
 موجودہ دورمیں جاسوسی کیلیے بھی ہیکنگ کو استعمال کیا جاتا یے ۔ اس مقصد کے حصول کیلیے ایسے سافٹ ویر تیار کیے جاتے ہیں جس میں چور دروازے رکھ دیے جاتے ہیں ۔ اسطرح سافٹ ویر بنانے والا غیر محسوس طریقے سے اپنے شکار کے کمپیوٹر سے معلومات چوری کرتا رہتا ہے ۔ یہ معلومات فوجی بھی ہو سکتی ہیں اور تجارتی بھی۔ یہ کسی دہشتےگردی کے منصوبے کو بے نقاب بھی کر سکتے ہیں کسی ملک کے انتہائ خفیہ منصوبے کو منظر عام پر لا سکتے ہیں اور کسی بڑے کاروباری ادارے کی مستقبل کی منصوبہ بندی کو بھی چوری کر سکتے ہیں۔
ایک اور بڑی خطرناک صورتحال اس وقت پیش آسکتی ہے جب سافٹ ویر کے اندر کوئ ایسا  نقص رہ جائے جو ہر کسی کی نظروں سے اوجھل رہے اور کوئ اس نقص کو استعمال کر کے دنیا میں کمپیو ٹراور اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے والوں کو نقصان پہنچا ئے یا ان کی معلومات کو چوری کرے۔ اس بار کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔ 
 ہم جو بھی  مواد انٹر نیٹ پر ترسیل کرتے ہیں وہ سادہ الفاظ میں ہوتا ہے جوکہ کوئ بہی پڑھ سکتا ہے ۔ اس مسئلے کے حل کیلیے ایس ۔ایس ۔ایل ۔(SSL)  نامی ٹیکنا لوجی ایجاد کی گئ تھی جس سے ترسیلی مواد کواسطرح توڑ موڑ (Encrypt) دیا جاتا یےکہ صرف موصول کنندہ ہی پڑھ سکتا ہے  ۔ مگر ہمیں کیا پتا تھا کہ اس میں ہی نقص نکل آئے گا اور کوئ بھی اس ترسیلی مواد کو پڑھ سکتا ہے اگر اسکو اس نقص کا پتہ چل جائے ۔ اب آپ سوچیں کہ تمام مالیاتی ادارے، ای میل فراہم کنندگان ،اور بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس ٹیکنا لوجی کو استعمال کرتے ہیں اور یہ سوچ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہمارا مواد محفوظ ہے  جوکہ حقیقت میں نہیں ہے۔ اور کوئ پتا نہیں کہ اس مواد کو کس کس نے پڑھا ہوا ہے اور کب سے کام ہو 
رہا ہے۔
یہ بہی ہو سکتا ہے کہ ہمارے پا س ورڈز (خفیہ کوڈز) کسی ہیکر کے پاس ہوں اور وہ مستقبل میں کبھی بھی اس کو استعمال کرلے ۔
یقیناٴ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے مگر اس سے زیادہ خوفناک یہ ہے کہ اس نقص کا علم جس ادارے کو تھا اس نے اس پر کوئ کاروائ نہیں کی ۔ میڈیا کے ذرائع کے مطابق اس اداے کا نا م ہے این۔ایس۔اے ۔ (.N.S.A) نیشنل سیکیورٹی ایجنسی۔  اس صورتحال میں تو پھر کوئ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جب وہ ادارے جو کہ سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں وہ ہی اس طرح کے خطرات سے نہیں آگاہ نہیں کرتے تو مستقبل کے خطرات سب کو نظر آرہے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ انٹرنیٹ کا مستقبل کیسا ہوگا ؟ کیا ہم اس نظام پر اعتبار کرسکتے ہیں جس میں ہماری ساری معلومات ای میل فراہم کنندہ کے پاس ہوں اور وہ غیر محفوز بھی ہو۔ یا ہمارے بنک کا انٹرنیٹ سسٹم ہی ہیک ہوا ہو یا وہ کوئ ایسا سافٹ ویئر استعمال کر رہے ہوں جو کہ غیر محفوظ ہو۔